Maktaba Wahhabi

180 - 531
تو ۶۵برس کی عمر میں وہ بوڑھی ہرگز نہیں تھیں اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی طبعی وفات ۶۵برس کی عمر میں ہوئی، مگر ۴۰برس کی عمر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا نکاح ہوا، وہ بوڑھی نہیں تھیں ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے چھ بچے ہوئے اور کوئی بوڑھی عورت لگاتار چھ بچے نہیں جنم دے سکتی۔ د راصل جب لوگ حدیث پر تشکیکی نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالتے ہیں تو اس میں ان کو عیوب کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ حدیث میں جو بات غور طلب تھی وہ یہ کہ مصر کے ظالم حکمراں کو حضرت سارہ پر دست درازی کرنی تھی چاہے وہ کسی کی بیوی ہو یا بہن، پھر ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اپنی بیوی کے بجائے بہن کیوں کہا؟ اس کا جواب محدثین نے یہ دیا ہے کہ اگر اس کو یہ معلوم ہوتا کہ ا س عورت کا کوئی شوہر ہے تو غیرت میں وہ ان کو قتل کرنے اور اپنی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا، جبکہ کسی کی بہن ہونے کی صورت میں یہ غیرت بھائی کی طرف سے ہوتی ہے جس کی اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔[1] اس توجیہہ میں بڑا وزن ہے لیکن قرآن کے مطابق مصری بادشاہ جس شخص کو ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کرنا چاہتے اس کو جیل میں ڈال دیا کرتے تھے، اس زیر بحث حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کی طرف تینوں جھوٹ کو منسوب کیا ہے جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے، لیکن صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے شفاعت کبری کی جو طویل حدیث مروی ہے اس میں اہل ایمان کے متعدد رسولوں کے پاس جانے اور ان سے دعا کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ آیا ہے کہ ہر رسول جس کے پاس وہ یہ درخواست لے کر جائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ وہ ان کا حساب کتاب کر کے ان کو ان ہولناک حالات سے نجات دے جن سے وہ دوچار ہیں ، اپنی کسی لغزش کو یاد کر کے معذرت کردے گا، حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ فرمائیں گے: ’’انی لست ھنا کم، ویذکر ثلات کلمات کذبھن‘‘ ’’درحقیقت میں ایسا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اور وہ اپنے تین جھوٹ کویاد کریں گے۔‘‘[2] یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ یہ حدیث جس سیاق وسباق میں آئی ہے وہ پہلی حدیث کے سیاق وسباق سے مختلف ہے اور حدیث کے راوی بھی دوسرے صحابی ہیں تو کیا ان دونوں صحابیوں نے دو مختلف حالات میں اور دو مختلف واقعات کے ضمن میں یہ غلط بیانی کر کے اس کو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردیا ہے، اگر اس کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر قرآن کی قطعیت کا دعویٰ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ بھی صحابۂ کرام کی روایت ہی کے ذریعہ ہمیں ملا ہے او ر زبانی روایت سے ملا ہے، نہ مکمل قرآن ازاول تا آخر چھپا ہوا لوگوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور نہ کسی نے جبریل علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنی آیات اور سورتیں نازل کرتے دیکھاہے، بلکہ حدیث کی طرح قرآنی آیات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter