Maktaba Wahhabi

154 - 531
’’اس آیت میں توبہ سے جن سزاؤں کے سقوط کی خبر دی گئی ہے ان سے دنیا کی سزائیں مراد ہیں ، اسی وجہ سے ان کو قبل أن تقدروا علیھم سے قید کر دیا گیا ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر کے اس جواب کو اگر کھول دیا جائے تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ: ۱۔ اولاً تو سورۃ المائدہ کی مذکورہ آیت عکل اور عرینہ کے ان لوگوں کے مسئلہ میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے مدینہ آکر اسلام قبول کر لیا تھا، مگر مدینہ کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی اور وہ بیمار پڑ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹوں کے ساتھ چراہ گاہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب وغیرہ پئیں جس سے وہ تندرست ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو مذکورہ اونٹوں کا راعی اور چرواہا مقرر کر رکھا تھا اس کو تعذیب دے کر قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر فرار ہو گئے اور اسلام سے مرتد بھی ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں کرز بن جابر فہری کی سربراہی میں ۲۰ صحابیوں کی ایک ٹولی روانہ کی جس نے ان کا تعاقب کر کے ان کو دھر لیا۔ وہ مدینہ واپس لائے گئے ان کو مسلمان راعی کے قتل کے قصاص اور فساد فی الارض کے بدلے اس طرح سزاے موت دے دی گئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں سزاد دینے کا حکم دیا ہے۔ [1] ۲۔ آیت میں بیان کردہ حکم مذکورہ مخصوص افراد کے علاوہ ان افراد کے لیے عام ہے جو اللہ ور سول سے جنگ اور زمین میں فساد پھیلانے ، امن و امان کو بگاڑنے، لوگوں کو ہراساں اور قتل کرنے اور اموال عام و خاص کو لوٹنے اور املاک کو تباہ کرنے کی صفات سے موصوف ہوں اور یہ حکم مشرکین، مرتدین اور مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ ۳۔ آیت میں مفسدین کو دی جانے والی سزاؤں کے بارے میں جو یہ فرمایا گیا ہے: ﴿ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (المائدہ: ۳۳) ’’یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ تو جہاں تک مشرکین، کفار اور مرتدین کا معاملہ ہے ان کے حق میں تو یہ درست ہے کہ یہ سزائیں دنیا میں ان کے لیے رسوائی اور ذلت ہیں اور آخرت میں بھی وہ عذاب عظیم سے دوچار ہوں گے، کیونکہ وہ نہ تو اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخرت کی جزا و سزا کے قائل ہیں ۔ رہے مسلمان مفسدین فی الارض تو دنیا میں ان کے شر و فساد کے نتیجے میں ان کو ملنے والی سزائیں بلاشبہ ان کے لیے ذلت و رسوائی ہیں جن میں دوسروں کے لیے درس عبرت بھی ہے، لیکن چونکہ وہ مومن ہیں اور یوم جزا پر بھی یقین رکھتے ہیں اس لیے دنیا میں ان کو ملنے والی سزائیں آخرت میں ان کے گناہوں کا کفارہ ہوں گی، ورنہ ایمان و کفر اور مومن و کافر میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، جو عقل و منطق سے متعارض ہونے کے ساتھ خود اللہ تعالیٰ کے اعلان کے بھی خلاف ہے، ارشاد الٰہی ہے:
Flag Counter