Maktaba Wahhabi

15 - 531
الوہیت وعبادت کے بجائے وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ، میرے اس دعوے کی صحت وصداقت کو جانچنے کے لیے تصوف کی کسی بھی بنیادی کتاب پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہے۔ اسلام کی ابتدائی دو صدیوں میں تصوف نے کوئی عقائدی مسلک کی شکل نہیں اختیار کی تھی، بلکہ جو لوگ زہد و توکل، کثرت عبادت واذکار اور شب بیداری وغیرہ میں اپنی خاص شناخت رکھتے تھے ان کو ’’صالحین‘‘ کے نام سے شہرت حاصل تھی امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمے میں ان کا ذکر اسی لقب سے کیا ہے۔ یہ صالحین روایت حدیث اور سنت کی ترویج وتبلیغ کے میدان میں تو کوئی خاص مقام ومرتبہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ روایت حدیث کے حوالہ سے وہ محدثین کے نزدیک قابل اعتماد بھی نہیں تھے، پھر بھی ان کا شمار ’’مبتدعین‘‘ میں نہیں ہوتا تھا۔ حارث بن اسد محاسبی متوفی ۲۴۳ہجری مطابق ۸۵۷ء وہ پہلا شخص ہے جس نے تصوف میں ’’کلام‘‘ کی آمیزش کی اور اس کو ایک فلسفیانہ عقائدی مسلک بنا دیا، اس کے بعد جتنے صوفیا پیدا ہوئے سب کا کسی نہ کسی درجہ میں متکلمین سے تعلق رہا، البتہ اکابر صوفیا میں ابو اسماعیل عبداللہ انصاری ہروی متوفی ۴۸۱ہجری مطابق ۱۰۸۹ء ایسے صوفی گزرے ہیں جو متکلمین کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے ’’ذم الکلام واہلہ‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں ایک گراں قدر کتاب بھی لکھی ہے۔ رہے برصغیر کے صوفیا تو یہ اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے ان کو متکلمین کے عقائد کہنا ضروری اور لازمی خیال کرتے ہیں جس سے ان کی نظر میں متکلمین کے عقائد کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ صوفیا اپنے عقائد میں متکلمین کے پیرو ہیں تو یہ واضح کرنا بھی ضروری ہوگیا کہ متکلمین کا عقیدہ توحید بھی بیان کر دیا جائے۔ اوپر یہ بات آچکی ہے کہ صوفیا کے نزدیک ’’لا الٰہ الا للّٰه ‘‘ کا مطلب ہے، اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ، یعنی ان کے نزدیک ’’اِلٰہ‘‘ کے معنی ’’موجود‘‘ کے ہیں ، جبکہ متکلمین اس کلمہ کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ: اللہ کے سوا ایجاد پر قدرت رکھنے والا کوئی نہیں ۔‘‘ یعنی ان کے نزدیک ’’الٰہ‘‘ بمعنی ’’قادر علی الاختراع‘‘ ہے۔ یہ بات اگرچہ درست ہے کہ کسی چیز کی ایجاد کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، مگر اولاً: تو یہ مفہوم لا الٰہ الا اللہ‘‘ سے نہیں نکلتا۔ ثانیاً:اگر ’’لا الٰہ الا للّٰه ‘‘ کا مطلب یہ ہوتا کہ اللہ کے سوا ایجاد پر قدرت رکھنے والا کوئی نہیں ہے تو قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو یہ کہہ کر قبول کر لیتے کہ ہم تو پہلے سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور صرف اللہ کو خالق مانتے ہیں ‘‘ اور خالق قادر سے زیادہ بلیغ ہے۔ یاد رہے کہ مشرکین توحید ربوبیت کو مانتے تھے جس کے ذکر سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے معبود ہونے پر صرف اپنے رب ہونے سے استدلال کیا ہے، توحید ربوبیت کی دعوت نہیں دی ہے، چنانچہ
Flag Counter