Maktaba Wahhabi

147 - 531
اس حدیث کی سند میں میں نے معتمر کے والد سلیمان بن طرخان تیمی بصری کے نام کی تصریح کردی ہے، ورنہ معتمر نے صرف ابی -میرے والد- کہا تھا۔ اس حدیث میں جنت میں داخل کیے جانے والے جس خوش نصیب مومن کی خبر دی گئی ہے اس سے شرک کی نفی پر اکتفا کیا گیا ہے جس سے اس کے ایسا موحد ہونے کی تاکید ہوگئی ہے جس کا عقیدہ و عمل ہر طرح کے شرک سے پاک ہو۔ اس حدیث میں ’’اللہ سے ملنے‘‘ سے جہاں یہ مراد لینا درست ہے کہ اس کی موت توحید پر ہوئی ہو وہیں یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ قبر سے اس حال میں اٹھے۔ یا آخرت میں اللہ کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اس کا عقیدہ و عمل شرک باللہ سے پاک ہو، لیکن پہلا معنی زیادہ قرین صواب ہے، کیونکہ موت آخرت کا دروازہ ہے اور موت ہی کے وقت روح قبض کرنے والے فرشتے وفات پانے والے کو اس کے عقیدہ و عمل کے انجام سے باخبر کردیتے ہیں ، چنانچہ شرک سے پاک زندگی گزارنے والوں کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ: ﴿اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ، ﴾ (النحل:۳۲) ’’جن لوگوں کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ (شرک) سے پاک ہوتے ہیں ان سے کہتے ہیں ، تم پر سلامتی ہو اپنے عمل کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ اس آیت میں ’’طیبین‘‘ سے مراد شرک سے پاک لوگ ہیں ، کیونکہ اس سے قبل آیت نمبر ۲۸ میں مشرکین کے لیے ’’ظالمی انفسھم‘‘ کی تعبیر آچکی ہے یعنی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے اور قرآن میں شرک کو ’’ظلم عظیم‘‘ کہا گیا ہے۔ زیر بحث حدیث کا فقرہ ’’دخل الجنۃ‘‘ عام ہے جو مومن کے عذاب کے بغیر اور عذاب کے بعد جنت میں داخل کیے جانے، دونوں حالتوں کو شامل ہے اس طرح یہ حدیث سابقہ حدیث سے متعارض نہیں ہے۔ تمام انبیاء کی عموماً اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصاً مرکزی اور محوری دعوت توحید الوہیت کی دعوت تھی اور جس دین کی اقامت کے لیے ان کی بعثت ہوئی تھی اس کا مرکزی نقطہ جس کے گرد اس دین کے احکام گھومتے ہیں ، یہی توحید الوہیت ہے، یعنی معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن و حدیث میں توحید الوہیت پر اتنا زور دینے کا مقصد یہ بتانا اور تاکید دلاتے رہنا ہے کہ اس توحیدکے بغیر اعمال کا کوئی اعتبار نہیں ، یہ مقصد نہیں ہے کہ اعمال کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ ایمان میں اعمال داخل ہیں ، اسی وجہ سے حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس بات سے منع فرمادیا تھا کہ وہ لوگوں کو یہ خوشخبری دیں کہ جو شخص شرک سے پاک حالت میں وفات پائے گا وہ لامحالہ جنت میں جائے گا، کیونکہ اگرچہ یہ بات حق ہے، مگر اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کرلیں گے اور عمل کو ترک کردیں گے۔
Flag Counter