Maktaba Wahhabi

127 - 531
بدء الخلق حدیث نمبر ۳۲۳۴۔ ۳۲۳۵، اور کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ النجم حدیث نمبر ۴۸۵۵ اور صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب: ھل رأی النبی ربہ حدیث نمبر ۱۷۷ میں آیا ہے کہ جب مسروق نے ام المومنین سے ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی﴾ (النجم:۸۔۹) ’’پھر وہ قریب ہوا، اور لٹک گیا اور دو کمانوں یا اس سے کم فاصلہ رہ گیا۔‘‘ کا مطلب پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ’’وہ جبریل تھے، جو ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی مرد کی صورت میں آیا کرتے تھے، مگر اس بار وہ اپنی اس صورت میں آئے جو ان کی صورت ہے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔‘‘ اس پر مسروق نے ان سے دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ﴿وَلَقَدْ رَآہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ، وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی﴾ (التکویر:۲۳، والنجم:۱۳) ’’اور اس نے اس کو روشن افق پر دیکھا ہے، اور اس نے اس کو دوسری بار اترتے دیکھا۔‘‘ اس کے جواب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا: وہ تو جبریل علیہ السلام تھے، میں نے ان کو اس صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے، ان دو موقعوں کے سوا کبھی نہیں دیکھا ہے، میں نے ان کو اس حال میں آسمان سے اترتے دیکھا کہ ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔‘‘ البتہ جب جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس موقع پر موجود صحابہ کرام بھی ان کا مشاہدہ کرتے، مگر ان کو عام انسان خیال کرتے، اور جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ بتاتے کہ وہ جبریل علیہ السلام تھے، جیسا کہ حدیث جبریل میں آیا ہے۔ (صحیح مسلم:۸) عام طور پر جبریل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے، جو بڑے وجیہہ اور خوبصورت تھے، چنانچہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرد سے بات کر رہے تھے، جب وہ چلے گئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ام سلمہ! یہ کون تھے؟ میں نے جواب دیا: دحیہ کلبی۔ میں یہ نہ جان سکی کہ وہ جبریل ہیں ، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اصحاب سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ ہمارے درمیان کون تھا۔‘‘[1] انبیاء اور رسل بھی فرشتوں کی انسانی شکل میں آمد کے موقعوں پر ان کو عام انسان ہی سمجھتے تھے، او ر ان کے بتانے پر ان کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ فرشتے ہیں ، جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے قصوں میں مذکور ہے۔[2] میں نے اس ضمنی موضوع پر اتنی تفصیلی بحث اس غرض سے کی ہے کہ قارئین کو ان گمراہ کن دعوؤں سے متاثر ہونے
Flag Counter