Maktaba Wahhabi

110 - 531
انھوں نے ام المومنین کو مخاطب کرکے یہ انداز تخاطب اس لیے بھی اختیار کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کریں تاکہ آپ ازواج مطہرات کو باہر نکلنے سے روک دیں ۔ عمر نے ان سے جو کہا تھا میں اس کو دوبارہ نقل کردیتا ہوں : ((ألا قد عرفناک یا سودہ!۔)) سودہ سن لیجیے ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ (۱۴۶) ((یا سودۃ أما واللّٰہ ما تخفین علینا، فانظری کیف تخرجین۔)) سودہ غور سے سن لیجیے، اللہ کی قسم آپ ہم سے چھپ نہیں سکتیں ، لہٰذا سوچ لیجیے کہ کس طرح نکلیں گی۔ (۴۷۹۵) پہلی حدیث زہری کی روایت کردہ ہے اور دوسری ہشام بن عروہ کی، آخر ان دونوں تعبیروں میں وہ کون سی ناشائستگی ہے جو حضرت عمر کے مقام سے فروتر ہے، پھر اس میں اس ’’ضرورت انسانی‘‘ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ ماں اور بیٹی کا ذکر کرکے اس کی قباحت اور شناعت میں اضافہ کیا جائے۔ اصلاحی صاحب کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی بات یا اعتراض میں وزن پیدا کرنے کے لیے اپنی طرف سے ایسی باتوں کا اضافہ کردیا کرتے ہیں جو احادیث میں اشارۃ بھی نہیں ہوتیں ۔ یہاں میں ایک نہایت اہم نکتہ کی طرف اشارہ کردینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ ہم عجمی مسلمانوں میں ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے، یا بڑی شخصیتوں کے غائبانہ تذکرے کے موقع پر جن تعظیمی اور تعریفی القاب کا استعمال رائج ہے عرب ان سے بالکل ناواقف تھے، حتیٰ کہ اسلام کے دونوں بنیادی ماخذوں ، قرآن و حدیث میں بھی بڑی سی بڑی شخصیتوں کا ذکر القاب کے بغیر ہی آیا ہے اور صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بقیہ تمام لوگوں کو مخاطب بھی صرف ان کے ناموں سے کرتے تھے اور ان کے غائبانہ ذکر کے موقع پر بھی ہر طرح کے القاب سے خالی صرف ان کے ناموں کے ذکر پر اکتفا کرتے تھے اس سے ازواج مطہرات بھی مستثنیٰ نہیں تھیں ، اگر کبھی ان کا ذکر کسی لقب کے ساتھ کیا بھی جاتا تھا، تو وہ یا تو ام المومنین ہوتا یا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہی حال محدثین اور فقہاء کا بھی تھا کہ وہ بڑے سے بڑے محدث یا فقیہہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے صرف اس کا نام لیتے تھے، جس کے ساتھ توضیح کی غرض سے کبھی کبھار کنیت بھی بیان کردیا کرتے تھے۔ جہاں تک ’’خطاب‘‘ کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث اور عربی ادبیات میں ایک شخص کے لیے ’’صیغہ تعظیمی‘‘ کے استعمال کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ ’’انت‘‘ ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے، البتہ اس کے ساتھ بسااوقات یارسول اللہ! بھی کہا کرتے تھے۔ چونکہ اصلاحی صاحب کو امام زہری کو مطعون کرنا تھا اور ان پر شیعیت کے فروغ کا الزام لگانا تھا، اس لیے انھوں نے رائی کو پہاڑ بنالیا، اور یہ بھی نظر انداز کردیا کہ زیر بحث حدیث کی روایت میں زہری منفرد نہیں ہیں ، بلکہ ان کو یہ معلوم نہیں رہا ہوگا!!!
Flag Counter