Maktaba Wahhabi

78 - 281
گئے، امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق کے بارے میں کہا کرتے تھے: ’’ ھذا سیدنا وأعتق سیدنا ‘‘[1]ابوبکر ہمارا سردار ہے اور اس نے ہمارے ایک سردار کو خرید کر آزاد کیا، کیونکہ انہوں نے بلال حبشی کو خرید کر آزاد کیا تھا۔ ابو سفیان نے کہا: امیر المومنین نے انصاف نہیں کیا، ہمیں بٹھا چھوڑا ہے اور ایک غلام کا استقبال کیا ہے، یہ امیر المؤمنین کا انصاف نہیں، حکیم بن حزام نے کہا: تم ناراض کیوں ہوتے ہو؟ امیر المومنین نے انصاف کیا ہے، تم یہ نہ دیکھو کہ تمہارا خاندان کیا ہے اور تم کس برادری کے ہو؟ یہ دیکھو کہ اسلام میں تقدم کس کو ہے؟ تمہیں یا بلال کو؟ بلال نے اسلام کب قبول کیا اور تم نے اسلام کب قبول کیا؟ بلال نے تب کیا، جب اسلام قبول کرنا ایک بڑی گالی تھی اور جو اسلام قبول کر لیتا، اسے انگاروں پر گھسیٹا جاتا، تکلیفیں دی جاتیں، ان کو آریوں سے چیرا جاتا اور تم نے تو اسلام تب قبول کیا جب مکہ فتح ہوگیا، علاقہ چھن گیا، گھروں پر قبضے ہوگئے، چودھراہٹیں ختم ہوگئی، مونچھیں نیچی ہوگئیں، تب تم نے اسلام قبول کیا، بلکہ حکیم بن حزام نے کہا: اے ابو سفیان! کل جب قیامت کا دن ہوگا، بلال حبشی کو اﷲ بلائے گا، تو اﷲ پر بھی اعتراض کرو گے؟ یا اﷲ! یہ کیسی تقسیم ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ المؤذنون أطول الناس أعناقا یوم القیامۃ‘‘[2]  قیامت کے دن موذنوں کی گردنیں سب سے اونچی ہونگی اور بلال حبشی تو کعبۃ اﷲ کے موذن اور مسجد نبوی کے مؤذن ہیں اور پوری زندگی اﷲ کے نبی کے امر سے یہ خدمت انجام دیتے رہے۔[3]
Flag Counter