Maktaba Wahhabi

288 - 281
وہ نبی ہو، نبی کا سچا ہونا تو لازمی ہے، صادق العہد ہو، لیکن صادق العہد ہونے سے نبی نہیں بن جاتا۔ 2۔ دوسری چیز اس حدیث کا باب سے تعلق ہے، اس کے لیے چار چیزیں بیان کی گئی تھیں، پہلی چیز تو یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مفتری نہیں، گویا یہ کلام نفسی نہیں اور نہ ان پر کوئی شیطان مسلط ہے، یہ واقعہ ان سب کی طرف اشارہ کرتا ہے، سابقہ سب پیشین گوئیاںحضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مفتری نہ ہونے پر منطبق ہوتی ہیں اور ہرقل خود بھی ان پیشین گوئیوں کے متعلق کہہ رہا ہے، کلام نفسی اس لئے نہیں کہ یہ مجنون آدمیوں کی بڑ ہوتی ہے، اس میں ایسا اثر کہاں کہ بادشاہ بھی لرزہ براندام ہوں اور خوف کھانے لگیں، کلام نفسی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان لوگوں کی پیروی کرنے والے بھی تقریباً فاتر العقل ہی ہوتے ہیں یا آریہ قسم کے لوگ، دانشمند اور عقلمند آدمی ان کا معتقد نہیں ہوسکتا۔ 3۔ اسی طرح شیطانی تسلط کا نہ ہونا بھی ظاہر ہے، شیطان کے تسلط سے دنیا پر اس قسم کا اثر مرتب نہیں ہوتا اور نہ پہلی پیشین گوئیوں کا اس پر انطباق ہوتا ہے، آپ نے جو مکتوب ارسال فرمایا تھا، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کو یقین تھا کہ میں خالق کائنات مالک دو جہاں کا رسول ہوں، عام آدمی کو خط لکھنا کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، بادشاہ کو خط ارسال کرنا نہایت ہی معنی خیز ہے۔ آپ کی بعثت، بعثت عامہ تھی: اس زمانے میں دو ہی بڑے بادشاہ تھے، جس طرح آج دو سپر اور بڑی طاقتیں روس اور امریکہ ہیں، اسی طرح اس دور میں ایران اور روم کی سلطنتیں عظیم اور بڑی تھیں، ایرانی فرمانروا ’’کسریٰ‘‘ کے لقب سے مشہور تھا اور روم کا بادشاہ ’’قیصر‘‘ کہلاتا تھا، ان دونوں بڑی حکومتوں کے سربراہوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے سخت الفاظ
Flag Counter