Maktaba Wahhabi

253 - 281
یا یہ سمجھے کہ وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہے، حکم تشریعی کے ساتھ حکم تکوینی بھی اس کا نافذ ہے، یہ صورت تو شرک ہے، مولانا مودودی صاحب نے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات سمجھی ہی نہیں، بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ اطاعت جو ہے اصل میں یہی عبادت ہے، قانون الہٰی کی اطاعت کرے گا، تو اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہوگی، قانون انسانی کی کرے گا، تو گویا قانون انسانی کی عبادت ہوگی۔ قیام، رکوع اور سجود مقصود بالذات ہیں: اصل بات یہ ہے کہ عبادت نام ہے عاجزی اور انکساری کا، رکوع، سجود، اور قیام وغیرہ میں عاجزی ہوتی ہے، اسی لئے یہ عبادت ہے، یہ عاجزی و انکساری کے افراد ہیں، جیسا کلّی کے افراد ہوتے ہیں، افراد ہی مقصود بالذات ہوتے ہیں، اس لئے یہ مقصود بالذات چیزیں ہیں، عاجزی اور تذلل و انکسار سے اﷲ تعالیٰ خوش ہوتا ہے، راضی ہوتا ہے۔ ارسطو کی منطق: باقی یہ بات جو ارسطو نے کہی ہے کہ عبادت دراصل انسان کے معاشرتی امور کے لیے خادم ہوتی ہے، ارسطو کی اس منطق چھانٹنے کا منشا یہ ہے کہ انسان چونکہ مدنی الطبع ہے، مل جل کر اکٹھے رہنا اس کی فطرت اور جبلت کا تقاضا ہے، اس اجتماعی معاشرتی زندگی میں ہر آدمی تو سارے کام تنہا انجام نہیں دے سکتا، اس لئے کام تقسیم ہو جائیں گے، اس کام میں ایک دوسرے سے ردو بدل بھی ہوگا، باہمی لین دین، خریدو فروخت شروع ہوجائے گی، اس ردو بدل کے پیش نظر خواہ مخواہ لوگوں کو ایک سکہ بنانا پڑے گا، اس لئے کہ یہ تو ناممکن سی بات ہے کہ ایک سر پر چارپائی اٹھائے پھرے کہ مجھے اس کے بدلے میں گندم درکار ہے یا دانے اٹھائے پھرے کہ مجھے ان کے عوض میں چارپائی دے دو، اس لئے ایک سکہ کا جاری کرنا ناگزیر ہے، تاکہ خریدو فروخت اور ضروریات زندگی کی فراہمی آسانی سے ہوسکے۔
Flag Counter