Maktaba Wahhabi

252 - 281
حاجت روا سمجھ کر قانون وقت کی اطاعت کرے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے یا اسے حاکم سمجھ کر کرے کہ اسے شرعی حکم دینے کا اختیار ہے یا یہ سمجھے کہ حکم تکوینی اس میں ہے، تو اس کی نوعیت تو اس جیسی ہو گی، جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے: { اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ ا للّٰهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ } [التوبہ:31] ’’انہوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اﷲ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں۔‘‘ ’’ لِیَعْبُدُوْٓا ‘‘پیچھے آیا ہے، احبار و رہبان کو رب بنانے کا ذکر پہلے آیا ہے۔ رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کوئی چیز حرام کر دے تو اسے حرام سمجھے اور اگر حلال کر دے تو اسے حلال سمجھے، گویا اس کی اطاعت اس نظریہ سے کرے کہ اسے حلال و حرام کے اختیارات ہیں، گویا اس کی حیثیت ایک شارع کی تسلیم کرنے کے بعد اس کی اطاعت کرتا ہے، تویہ عبادت ہوجائے گی۔ 2۔ اطاعت کی ایک صورت یہ ہے جیسا کہ کارخانے میں مزدور اور کارخانے والے کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، مالک کہتا ہے ہم تمہیں اتنے وقت کی کارکردگی پر اتنے پیسے دیں گے، مزدور اسے تسلیم کر لیتا ہے، یہ عوض معاوضہ کی صورت ہے، اسے عبادت نہیں کہہ سکتے ہیں۔ 3۔ اطاعت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کسی بزرگ آدمی نے کسی سے کہا کہ مجھے پانی لادو یا ماں باپ نے کہہ دیا کہ بازار سے فلاں چیز خرید لاؤ، احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ تعمیل حکم کرتا ہے، یہ بھی عبادت میں شامل نہیں ہوگی، ہاں اگر کسی قانون مروجہ کی اطاعت اس نیت سے کرے کہ قانون مروجہ کا مقنن شارع ہے
Flag Counter