Maktaba Wahhabi

302 - 281
ہے، آپ کا وہ احترام بھی کرتا ہے، زبان سے بھی ’’ إنہ نبيٌّ ‘‘ کہہ رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس امت کا بادشاہ ظاہر ہوگیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو نبی بھی مانتا ہے، دل میں تصدیق اور طبیعت میں احترام بھی ہے، مگر حکومت اور ملک کے لالچ اور طمع کی خاطر اسلام میں داخل نہیں ہوا، گویا اسلام میں داخل ہونا الگ چیز ہے، اسلام کو صحیح سمجھنا اور اس کی صحت کا اقرار کرنا ان دونوں سے اسلام میں داخل نہیں ہوتا، اس کی مثال یوں سمجھئے کہ آج کل ایک تحریک چل رہی ہے، ایک آدمی زبان سے کہتا ہے کہ یہ تحریک بالکل صحیح ہے، دل سے مانتا بھی ہے کہ تحریک صحیح ہے، مگر اتنا ماننے اور اتنا کہنے سے تحریک میں داخل تو نہیں ہوجاتا اور نہ کوئی اسے تحریک کا فرد تسلیم کرتا ہے، تحریک میں داخل ہونے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے کہ اس تحریک کے منشور، طریق کار کو صحیح سمجھ کر عملاً اس میں حصہ لے اور ان خطوط پر حصہ لے جو قائدین تحریک یا ان کا نمائندہ جس طرح بتائے، بصورت اول تحریک کا رکن متصور نہیں ہوگا۔ اسلام کی امتیازی علامت: اسلام و ایمان کی امتیازی علامت کے تعین میں اختلاف پڑ گیا ہے، محدثین کہتے ہیں، وہ عمل ہے، متابعت ہے، اس لئے عمل و متابعت ناگزیر ہے، اس کے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتا، ورنہ ہرقل کو مسلمان ہوجانا چاہیے تھا، اسی طرح ابو طالب بھی مانتا ہے کہ یہ دین تمام ادیان سے بہتر ہے، کہتا ہے: لولا الملامۃ أو حذار مسبۃ لوجدتنی سمحا بذاک مبینا پھر تو ابو طالب بھی مسلمان متصور ہونا چاہیے! حافظ نے لکھا ہے کہ جنگ تبوک میں بھی یہی ہرقل تھا، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں فوجیں لے کر آیا تھا، آپ نے اسے لکھا کہ مسلمان ہو جاؤ، اس نے کہا میں
Flag Counter