Maktaba Wahhabi

120 - 281
اللّٰہ کے معنی کو ہم سمجھیں اور اس کو اپنائیں، جو انبیاء کے دین کے وارث اور داعی ہوتے ہیں، اس منہج کے حامل ہوتے ہیں، وہ انبیاء کی طرح جھنجھوڑے بھی جائیں گے، فاقوں میں ان کو رہنا پڑے گا، تکلیفیں دی جائیں گی، گھسیٹیں جائیں گے، آزمائشیں آئیں گی، ان پر صبر کرنا چاہیے، اﷲ پاک کا فرمان ہے : { اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ﴿٢١٤﴾ } [البقرہ: 214] تم کیا سمجھتے ہو جنت میں یونہی چلے جاؤ گے؟ نہیں اس وقت تک نہیں جب تک تمہارے اندر سابقہ لوگوں کی مثالیں نہ آجائیں، تم یہ سمجھتے ہو، جس روش پر قائم ہو جنت میں پہنچ جاؤ گے؟ تم سوچو کہ تم نے جنت کے لیے ابھی کیا کیا ہے؟ جب تک سابقہ لوگوں کی مثالیں نہ آئیں، جن کو جھنجھوڑا گیا، فاقے برداشت کرنے پڑے، قتل اور زخم سے چور ہونا پڑا، جب تک وہ مثالیں نہ آئیں، اس وقت تک نہیں جا سکتے، تو اس کے لیے ہم صبر کی تربیت حاصل کریں، اس نقطے پر قائم ہوں، اپنے آپ کو تیار اور آمادہ کریں، صبر علی أقدار اﷲ پر شریعت کی روشنی میں اور شریعت کے امور کے تحت عمل کریں۔ ہرقل کا نواں سوال: ہرقل کا سب سے اہم سوال یہ تھا: ’’ ما ذا یأمرکم؟ ‘‘ ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ یہ شخص جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے؟ نبی ہی حاکم ہوتا ہے: اس کے اس سوال میں بڑی بصیرت ہے اور یہ سوال اس کے بڑے اچھے فہم کی
Flag Counter