Maktaba Wahhabi

204 - 281
عربوں کے عام اوصاف: عرب میں چونکہ مرکزی قیادت نہیں قبائلی نظام تھا، ہر قبیلے کا سردار ہوتا تھا، جو اس قبیلے کا گویا حاکم ہوتا تھا، ہر قبیلے کو حفاظت خود اختیاری کے اصول پر اپنی حفاظت آپ کرنا ہوتی تھی، اس لئے ہر قبیلے کو اپنے نوجوانوں میں شجاعت، بہادری اور دلیری کا جوہر زیادہ پیدا کرنا پڑتا تھا اور نوجوانوں کو بہادرانہ یاد گاری کارنامے انجام دینے پڑتے تھے، قبیلے کے سردار میں چند نمایاں امتیازات اور اوصاف ہوتے تھے، مثلا سخی ہوتا تھا، شریف النفس ہوتا تھا، بارعب اور قوی ہوتا تھا، سخاوت کا جزو اس میں زیادہ نمایاں ہوتا تھا، یہ ناگزیر تھا، کیونکہ عرب میں میلے لگتے تھے، وہ اس میں جاتے، قبائل کے سردارسخاوتیں کرتے، جو زیادہ دیگیں پکوا کر تقسیم کرتا، اس کا سر اونچا رہتا، شعراء اپنے اپنے قبائل کے اوصاف کے پُل باندھتے، سردار قبیلہ کی بہادری، سخاوت اور شرافت کے تذکرے ہوتے۔ ان اوصاف جمیلہ کے ساتھ ساتھ ان میں مے خوری بھی تھی، جسے وہ حلال سمجھ کر پیتے تھے ، ان میں چور اور زانی بھی تھے، مگر اکثریت کے لحاظ سے اچھے لوگ تھے، یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رگ حمیت اس وقت بہت زیادہ پھڑکی، جب صلح حدیبیہ ہو رہی تھی، ایک کافر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کے اردگرد جمع ہونے والے لوگ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، بوقت ضرورت اور میدان جنگ میں تو اپنے ہی کام آتے ہیں، حضرت ابوبکر نے نہایت طیش اور غصہ میں کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم ضرورت کے وقت آپ کو چھوڑ دیں گے؟ ’’ اُمصص بظر اللات! ‘‘ یہ بڑا سخت لفظ انہوں نے استعمال کیا، اس آدمی نے پوچھا یہ کون شخص ہے، جو یہ لفظ بول رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابو بکر ہے، اس نے کہا ابوبکر نے مجھ پر
Flag Counter