دکھائیں تو بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ اس کیفیت سے ہاتھ باندھنے والا سینے سے نیچے یا کم از کم ناف سے نیچے باندھ ہی نہیں سکتا۔ تو گویا فکر و تامل کرنے پر صحیح بخاری شریف میں بھی ’’فَـوْقَ السُّـرَّۃ‘‘اور ’’عَلَی الصَّدْرِ‘‘ یا ’’عِنْدَ الصَّدْرِ‘‘ ہاتھ باندھنے کی طرف اشارہ موجود ہے۔[1] فَلْیُتَاَمَّلْ
بعض دیگر دلائل:
5-اسلامیانِ برصغیر کے مابین معروف ترین بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (جو گیارھویں والے پیر کے نام سے مشہور ہیں) انھوں نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کے آغاز ہی میں مسنوناتِ نماز کے ضمن میں لکھا ہے:
’’دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف سے اوپر باندھنا سنت ہے۔‘‘[2]
زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل:
اب آئیے اس سلسلے میں دوسرا مسلک رکھنے والوں کے دلائل کا بھی مطالعہ کریں۔ یہ دوسرا مسلک احناف کا ہے جو زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے قائل و فاعل ہیں اور ان کا استدلال بعض ضعیف احادیث سے ہے:
پہلی حدیث اور اس کی استنادی حیثیت:
ان کی پہلی اور اہم دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔‘‘[3]
اگر اس حدیث کی سند صحیح یا حسن درجے کی ہوتی اور متن بھی غیر متنازع فیہ
|