Maktaba Wahhabi

63 - 281
دیکھ رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ میں جھوٹ بولنے لگا ہوں، تو ساتھیوں کو اشارہ کر سکتا ہے کہ تم یہ بات سن لو اور خاموش رہو۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا اور ساتھیوں کا چہرہ سامنے ہوگا، تو ہو سکتا ہے کہ ساتھی شرما جائیں کہ ہم اپنے دوست کی تردید نہ کریں اور اپنے دوست کو نہ جھٹلائیں ، چنانچہ اس طرح بٹھاؤ کہ دوران گفتگو ابو سفیان ان میں سے کسی کا چہرہ نہ دیکھے اور اس کے ساتھی ابو سفیان کا چہرہ نہ دیکھیں۔ یہ جھوٹ سے بچنے کا ایک بہت بڑا امکان پیدا کرنا ہے اور پھر ساتھ ہی ہر قل نے ابو سفیان کے ساتھیوں سے کہا: ’’ إني سائل ھذا الرجل ‘‘ میں اس شخص (ابوسفیان) سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارہ میں کچھ باتیں پوچھنے والا ہوں، کچھ سوال کرنے والا ہوں: ’’إن کذبني فکذبوہ ‘‘ اگر اس نے کوئی جھوٹ بولا، تو تم فوراً مجھے بتانا، اس کی نشاندہی اور اس کی تکذیب کرنا، ابو سفیان کا کہنا ہے: ’’ فواللّٰہ لو لا الحیاء من أن یأثروا علي کذبا لکذبت عنہ ‘‘ اگر شرم و حیا نہ ہوتی، کس بات کی؟ کہ کل تاریخ میں میری طرف جھوٹ منسوب کیا جائے گا ، تو میں ضرور جھوٹ بولتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت ہمارے سینوں اور دل و دماغ میں اس قدر رچ بس چکی تھی کہ اس کے لیے میں جھوٹ تک بولنے پر آمادہ تھا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ اگر ہر قل کے دربار میں میری تکذیب ہوئی، تو ایک مستقل جھوٹ میرے نام پہ لگ جائے گا اور یہ بدنامی! مجھے شرم آگئی، میں نے یہ طے کر لیا کہ جو بھی جواب دوں گا، سچا جواب دوں گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ کی تہمت یا جھوٹ کی شہرت کو اس جاہلی معاشرہ میں بھی واقعتا برا سمجھا جاتا تھا، وہ بھی جھوٹ سے خائف تھے اور جھوٹ سے بچتے تھے ، کیونکہ جھوٹ ایک برائی، ایک خامی اور ایک عیب تھا، یہ بات وہ اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے، حالانکہ وہ جاہلی معاشرہ تھا۔
Flag Counter