Maktaba Wahhabi

52 - 358
نہیں ہے ایسا شخص صبر کرے۔ اللہ تعالیٰ سے ثواب کا طلبگار رہے اور حالات کی بہتری کے لیے اس سے امید رکھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَالْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا))(رواہ احمد) ’’ جان لیجئے کہ مدد صبر کے ساتھ، غموں کی دوری مصائب کے ساتھ اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔‘‘ ہر مصیبت زدہ شخص کو یقین رکھنا چاہیے کہ مصائب اس کی گذشتہ خطاؤں کا کفارہ ہیں۔ بندہ مومن کو جب بھی کوئی پریشانی، غم و اندوہ یا تکلیف وغیرہ آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں، صبر و احتساب کے ساتھ ہی بندہ اس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوتا ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾(البقرۃ 2؍155-156) ’’ اے پیغمبر! صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجئے وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ جو خاتون موت کو ہی اپنی جملہ مشکلات کا حل سمجھتی ہے، تو میری رائے میں یہ ایک غلط سوچ ہے، کیونکہ موت مشکلات و آلام کا حل نہیں، بلکہ وہ شخص مرنے کے بعد اخروی عذاب سے جلد دوچار ہو گا جو زندگی بھر اپنے آپ پر زیادتی کا مرتکب ہوتا رہا اور گناہوں سے کنارہ کش نہ ہوا اور نہ ہی اپنے مالک کے حضور معافی کا خواستگار ہوا۔ اس کے برعکس اگر وہ زندہ رہا، اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار، صبر و استقامت اور مصائب کو برداشت کرنے اور آسودہ حالی کے انتظار کی توفیق بخشی تو اس میں اس کے لیے خیر کثیر موجود ہے۔ لہذا محترمہ! آپ صبر کا دامن تھامیں، استقامت کا مظاہرہ کریں اور رب العزت کی طرف سے آسودہ حالی کا انتظار کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦﴾(الم نشرح 94؍5-6) ’’ بےشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بےشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
Flag Counter