Maktaba Wahhabi

36 - 358
قلت صبر کے خدشہ کی بنا پر انہیں جنازوں کے پیچھے(ساتھ)قبرستان تک جانے سے منع کیا گیا ہے اور اس حرمت کی اصل بنیاد، اللہ ذوالجلال کا یہ فرمان ہے: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ ﴾(الحشر 59؍7) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(شرعی امور میں)تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو۔(اس پر عمل کرو)اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے تم رک جاؤ۔‘‘ البتہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں مردوں اور عورتوں، سب کا شامل ہونا جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بات ثابت ہے۔ ہاں! ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے کہ’’ ہم پر جنازوں کے پیچھے چلنا واجب بھی تو نہیں کیا گیا۔‘‘ عورتوں کا جنازوں کے پیچھے آنے کا جواز بالکل نہیں نکلتا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، روکنے والا حکم، منع کے حکم میں ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی اپنی بات ان کے اجتہاد کی بنا پر ہے کہ جس کا سنت کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں۔ دوسری قسم بدعی ہے: اور وہ یہ کہ زیارت کرنے والا اہل قبور سے اپنے لیے دعا اور مدد طلب کرے یا ان کے نام پر(جانور)ذبح کرے یا ان کے نام کی نذر نیاد دے۔ یہ قطعی طور پر ممنوع اور ’’ شرک اکبر‘‘ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ ان(بدعتوں)سے ملتے جلتے کام یہ بھی ہیں کہ ان کے پاس آ کر(تبرکا)دعا مانگے، نماز پڑھے یا تلاوت کرے۔ یہ بدعت ہے اور بالکل جائز نہیں۔ یہ ساری باتیں ’’ وسائل شرک ‘‘ میں سے ہیں۔ درحقیقت اس موضوع سے متعلق تین اقسام بنتی ہیں: قسم اول: جائز: اور وہ یہ ہے کہ زیارت قبور، آخرت کو یاد کرنے اور اہل قبور کے حق میں دعا کرنے کی خاطر ہو۔ قسم دوم: بدعت: اور وہ یہ ہے کہ قبروں کے پاس(تبرکا)تلاوت کرنا، نماز پڑھنا اور ان کے پاس(جانور)ذبح کرنا تو یہ بدعت اور وسائل شرک میں سے ہے۔ قسم سوم: شرک اکبر: اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص قبر کی زیارت کرے تاکہ صاحب قبر(مدفون)کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے(قبر پر)جانور ذبح کرے اور اس ذبیحہ کے ذریعے سے صاحب قبر کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔ یا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس قبر والے(مردے)سے دعا مانگے یا اس سے مدد طلب کرے، چاہے وہ مدد کشف مصیبت کے لیے ہو یا دشمن کے مقابلے میں غلبے کے لیے ہو۔
Flag Counter