Maktaba Wahhabi

280 - 358
کی جائے اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن(برقرار)ہو(تو وہ مستثنیٰ ہے)لیکن جو کوئی کھلے دل سے کفر کرے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہو گا۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ﴾(الاحزاب 33؍5) ’’ تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس(کے بارے)میں تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن جس کا تم دل سے ارادہ کرو(اس پر گرفت ضرور ہے)۔‘‘ لہذا آپ بقدر استطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہیں۔ اگر سائلہ کے گھر والے پردے کی حکمت سے آگاہ نہیں ہیں تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی اتباع کرنا مومن کی ذمہ داری ہے، وہ ان کی حکمت سے آگاہ ہو یا نہ ہو۔ اطاعت بذات خود ایک حکمت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴾(الاحزاب 33؍36) ’’ اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب دریافت کیا گیا کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا تو دیتی ہے جبکہ نمازوں کی قضا نہیں دیتی اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس پر آپ نے جواب دیا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، جبکہ نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا، تو گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے محض اطاعت کو حکمت قرار دیا۔ پردے کی حکمت تو بالکل واضح ہے، اس لیے کہ غیر مردوں کے سامنے عورت کا اپنے محاسن کو ظاہر کرنا باعث فتنہ ہے۔ فتنہ وقوع پذیر ہو گا تو گناہ اور بے حیائی کا دور دورہ ہو گا۔ اور جب ایسی چیزیں عام ہوں گی تو اس کا نام ہلاکت و بربادی ہے۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین…
Flag Counter