Maktaba Wahhabi

239 - 358
حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی ایسا بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو؟ کہا گیا: ’’ نہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ کیا وہاں جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا ہے؟‘‘ کہا گیا :’’ نہیں ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أوْفِ بِنَذْرِكَ فَإنّهُ لاَ وَفَاءَ لِنِذْرٍ في مَعْصِيَةِ اللّٰه وَلاَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ ابنُ آدَمَ)(ابوداؤد، کتاب الایمان والنذور، باب 23) ’’ اپنی نذر پوری کر، اللہ کی نافرمانی پر مشتمل نذر قطعا پوری نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس چیز کی نذر کہ جس کا انسان مالک ہی نہیں۔‘‘ سائلہ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے سال بھر کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، جبکہ ایک سال کے مسلسل روزے رکھنا زندگی بھر کے روزے رکھنے کے مترادف ہے، جو کہ مکروہ ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ صَامَ الدَّهْرَ فَلَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ)(رواہ احمد 4؍25) ’’ جس نے زندگی بھر روزہ رکھا تو اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔‘‘ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مکروہ عبادت اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے، لہذا ایسی نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لو نذر عبادة مكروهة مثل قيام الليل كله وصيام النهار كله لم يجب الوفاء بهذا النذر)(فتاویٰ ابن تیمیہ) ’’ اگر کسی نے مکروہ عبادت کی نذر مانی مثلا یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا، تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں۔‘‘ اس اعتبار سے سائلہ پر قسم کا کفارہ واجب ہے، جس کی مقدار دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو شہر کی غالب خوراک مثلا کھجور، چاول وغیرہ سے نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو)دینا ہو گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔ وصلى اللّٰه على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔
Flag Counter