Maktaba Wahhabi

186 - 358
(لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ) ’’ کنواری عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ یہ حکم عام ہے اس بارے میں اولیاء میں سے کسی ایک کو مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ صحیح مسلم میں تو یوں ہے: (البكر يستأذنها أبوها)(صحیح البخاری، کتاب النکاح باب 41 و مسلم، کتاب النکاح باب 64) ’’ کنواری عورت سے اس کا باپ اجازت حاصل کرے۔‘‘ اس حدیث میں کنواری عورت اور باپ کا ذکر بطور نص موجود ہے۔ نزاعی مسئلے میں یہ حدیث نص ہے، لہذا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس بنا پر آدمی کی طرف سے اپنی بیٹی کا نکاح کسی ایسے شخص سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی حرام ہے۔ اور حرام نہ تو صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی نافذ، کیوں کہ ایسے حکم کی صحت اور نفاذ شارح علیہ السلام کی نہی کے منافی ہے کیونکہ اس سے شارح علیہ السلام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ امت اس فعل کی مرتکب نہ ہو۔ ہم اس حکم کو صحیح قرار دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسے ان احکام کی جگہ دے رہیں جنہیں شارح علیہ السلام نے مباح قرار دیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لہذا راجح قول کی رو سے آپ کے باپ کی طرف سے لڑکی کا نکاح ایسے مرد سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی فاسد ہے اور اس معاملے میں عدالت کی مداخلت ضروری ہے۔ جہاں تک جھوٹے گواہوں کا تعلق ہے، تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَلا أخْبركُم بأكبر الْكَبَائِر إِلَّا شِرَاك بِاللّٰهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ وَشَهَادَةُ الزُّورِ ثَلاثًا أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ)(صحیح بخاری و صحیح مسلم) ’’ کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر فرمایا: اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے بیٹھے رہے پھر(آپ اٹھ کر یعنی سیدھے ہو کر)بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: خبردار جھوٹی بات سے بچو، خبردار جھوٹی بات سے بچو، خبردار جھوٹی گواہی سے بچو۔ راوی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دھراتے رہے یہاں کہ لوگوں نے کہا: کاش آپ مزید نہ دھرائیں۔‘‘ ان جھوٹے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے، حق بات کا اظہار کرنا چاہیے اور شرعی
Flag Counter