Maktaba Wahhabi

39 - 343
(ٹھہرانے کے) لئے پہاڑ بنانا اوردو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنانا یہ سب اس کی قدرت کے دلائل ہیں جن میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ "مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ، یا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں شریک ہے، قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفار مکہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے :﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ،﴾ ( اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے) (الزخرف، آیت 87)﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾ ( اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے) (العنکبوت، آیت 63)﴿قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾الیٰ قولہ:﴿ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ﴾( ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟ کون جاندار کو بے جان میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کر رہا ہے، وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ) ( یونس، آیت 31) عرب کے مشرکین ہی نہیں ، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظام کائنات کا مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر برائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں ، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزارہا آدمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ اس سوال اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجیے، زمین میں اس مواد کا ٹھیک سطح پر یا سطح سے متصل موجود ہونا جو بے شمار مختلف اقسام
Flag Counter