Maktaba Wahhabi

34 - 343
بغیر دوسرے کے مشورے کے کوئی کام نہ کرسکے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان میں سے ایک بھی مالک و مختار نہیں ، دونوں ناقص ہیں اور ناقص خدا نہیں ہوسکتا ۔" [1] "یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ سادہ سی بات، جس کو ایک بدوی، ایک دیہاتی، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں ۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسُب اور توازُن اور ہم آہنگی اور تَعَاوُن نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بے شمار اَشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مُطْلَقُ الْعِنَان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مُسْتَلْزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ [2] اسی مضمونِ توحید کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا: ﴿مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [3] ( اللہ تعالیٰ نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور الہٰ ہے (اگر ایسا ہوتا) تو ہر الٰہ اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو لے کر چل دیتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا (جیسے بادشاہوں کی عادت ہے جو باتیں اللہ تعالیٰ کی نسبت) یہ بناتے ہیں (مثلاً فرشتے اللہ کی بیٹیاں
Flag Counter