کہاں ہیں وہ اہرام مصری کے بانی کہاں ہیں وہ گردان زابلستانی
گئے پیشدادی کدھر اور کیانی مٹا کر رہی سب کو یہ دنیائے فانی
لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں کا بتاؤ کوئی نشان سا سانیوں کا
وائے نادانی وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھنا جو سنا افسانہ تھا
دنیا کی زندگی کی مثال
قرآن مجید نے حیات نا ثبات کی وضاحت ایک عام فہم مثال سے کی ہے کہ آسمان سے بارش کا پانی زمین پر گرتا ہے پانی سے نباتات ،انگوریاں اور بوٹیاں وغیرہ سر سبز و شاداب ہوتی ہیں ان پر رونق و ہریالی دوڑتی ہے وہ بوٹیاں اور انگوریاں دیکھنے والے کے لئے لذت و جاذبیت کا باعث بنتی ہیں دیکھنے والا انہیں لہلہاتے دیکھ کر شاداں ہو تاہے مگر عرصہ قلیل گزرنے کے بعد وہی نباتات اپنی ہریالی ' شادابی اور سر سبزی کھو بیٹھتی ہیں ناظر ان سے محظوط نہیں ہوتا وہ نباتات یابسہئ و بوسیدہ سامان لذت و فرحت فراہم کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی حالت زار و زبون یہ ہوتی ہے کہ ہوا انہیں خشک و یابس تنکوں کی صورت میں ادھر سے ادھراور ادھر سے ادھر اڑائے پھرتی ہے
﴿وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا ﴾ [1]
اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) ان کے لئے حیات دنیا کی مثال بیان کرو کہ وہ پانی کی مانند ہے جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں پھر اس سے زمین کی نباتات اگتی ہیں (مگر تھوڑے عرصے کے بعد) وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور ہوائیں ان کو اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
|