صاف گوئی سے عوام الناس میں اعتبارو یقین حاصل ہوتا ہے
صاف گوئی اور صدق مقالی ایک عمل صالح ہے اس کے صاحب صدق مقال اور صاف گو پر اچھے اور مثبت اثرات ظاہر و مرتب ہوتے ہیں ۔
صادق اللسان اور معتاد الصدق آدمی پر عوام الناس اعتبار یقین اور بھروسہ کرتے ہیں ۔اس کی ہر بات ہر قول ہر جملے اور ہر کلمے کو قدر و تعظیم اور عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اس طرح یہ فرزند ارجمند کہلائے گا۔
کوہ صفا پر جب تاجدار مدینہ اور فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر قریش مکہ سے کہا کہ ''اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں ایک لشکر جرار پڑاؤ کیے ہوئے ہے اور وہ مکہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے کیا تم میری اس بات کا یقین کرو گے تو سب نے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہم سب آپ کی بات کا یقین کریں گے اس لئے کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ صادق اللسان ہی پایا ہے۔ "
جب خالق کون مکاں نے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف معراج سے نوازا تو کفار نے سوچا کہ اب اچھا موقع ملا ہے لہذا ہمیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابوبکررضی اللہ عنہ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کرناچاہیے جس وقت کفار مکہ نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو معراج کی بابت بتایا اور ساتھ ہی پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا دعوی کس نے کیا ہے ؟کفار مکہ نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضی اللہ عنہ بولے کہ میرا ایمان ہے کہ جو وہ بیان کرتے ہیں برحق ہے اور مطابق للواقع ہے۔
فی زمانہ غیر مسلم اقوام کی مصنوعات کو مقبولیت عامہ اور پزیرائی حاصل ہے اس کی معقول وجہ (Rational reason) یہ ہے کہ وہ بیع و شراء کے معاملہ میں صاف گوئی اور صدق مقالی سے کام لیتے ہیں ۔
صاف گوئی سے نیکی کرنے کی توفیق ملتی ہے
|