(اور وہ( مسلمان )غصہ پی جاتے اور لوگوں پر مہربان ہیں اور اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتے ہیں ۔)
انسان کو غصہ عموماً اس وقت آتا ہے جب کوئی اس سے زیادتی کرے یا پھر ارتکاب خطا کے بعد اس پر بضد ہو بہر دو صورت اہل ایمان عفو و درگزر کرتے ہیں ۔
"مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حر بن قیس نے عیینہ نامی شخص کے لئے حضرت عمرص سے اجازت مانگی (یعنی حضرت عمر صسے ملاقات کرانے کی خواہش ظاہر کی)تو حضرت عمر صنے اجازت دے دی عیینہ کہنے لگا کہ اے عمر صنہ تو ہمیں صحیح حق دیتا ہے اور نہ ہی ہمارے درمیان عدل کرتا ہے عیینہ کی یہ غلط ، ناروا، اور گستاخانہ بات سن کر حضرت عمرص اتنے غصے میں آگئے کہ قریب تھا اس کی پٹائی کرتے (مگر)حر بن قیسص فوراً بولے کہ اے امیر المومنین قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ) یعنی عفو و درگزر کا دامن پکڑے رکھو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے اعراض کرو ۔حضرت عمر کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ و ہ کتاب اللہ سے تجاوزنہیں کرتے تھے (لہذا انہوں نے اسے معاف کردیا ) [1]
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی ہو ادھر حکم محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات پاک مجسمہ عدل وانصاف اور پیکر جرأت و بہادری تھی آپ کے عادلانہ فیصلہ جات ، منصفانہ امارت و خلافت اور انصاف پر مبنی احکام کے اپنے تو کیا اغیار بھی مُقِّرُو معترف ہیں ۔ پھر مزید حضرت عمررضی اللہ عنہ بڑی جو شیلی اور غصیلی طبیعت کے مالک تھے ۔ بے جا اور غلط اعتراض سن کر آپ آگ بگولہ ہوگئے مگر جونہی کلام الہی کانوں میں پڑا تو سر تسلیم خم کر دیا سارا جوش و غصہ پل بھر میں رفو ہوگیا اور مصداق آیت بننے کا شرف حاصل کر لیا
|