(خشوع حق کی قبولیت ہے اور اس کی علامات میں سے یہ ہے کہ جب بندے کی مخالفت کی جائے اور حق کو رد کر دیا جائے تو وہ پھر بھی اسے قبول کرے اور اس کی فرمان برداری کرے۔)
وَقَالَ الْجُنَيْدُ: اَلْخُشُوْعُ تَذَلُّلُ الْقُلُوْبِ لِعَلَّامِ الْغُيُوْبِ .
دلوں کا علام الغیوب کے سامنے مکمل فرمان برداری و انقیاد کرنا خشوع ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ خشوع کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں
(( وَاَصْلُ الْخُشُوْعِ ہُوَ لِیْنُ الْقَلْبِ وَرِقَّتُہ، وَ سُکُوْنُہ، وَ خُضُوْعُہ،،، وَانْکِسَارُہ، وَ حَرْقَتُہ، فَاِذَا خَشَعَ الْقَلْبُ تَبِعَہ، خُشُوْعُ جَمِیْعُ الْجَوَارِحِ وَالْاعْضَائِ لِاَنَّہَا تَابِعَہٌ لَّہ)) [1]
(خشوع کا اصل دل کا پسیج جانا،رقت، سکون، خضوع ،عجز اور اس کا سوز ہے۔)
" خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔" [2]
مولانا مودودی خشوع کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
'' خشوع کے اصل معنی ہیں کہ کسی کے آگے جھک جانا دب جانا اور عجز و انکسار کرنا ' اس کی کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری کیفیت سے بھی دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے اعضائ ڈھیلے پڑ جائیں نگاہ پست ہو جائے آواز دب جائے
|