دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے نیکی کا بدلہ نیک ہے بد دے بدی کی بات لے
کل جگ نہیں کر جگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے اس ہات لے
فطرت کا اصول غیر متبدل ہے کہ پسرِ آدم جتنا عظیم کام سر انجام دے گا اسے اتنا ہی اس کا عظیم ثمرہ و صلہ ملے گا ۔عالم کون و فساد میں عظیم ترین کام اطاعت و بندگئی الٰہی ہے۔ لہذا اصول فطرت کے مطابق اس کا صلہ بھی عظیم ترین ہی ہونا چاہئے ۔لیکن اس کے برعکس عظیم ترین کام کا صلہ اور ثمرہ صرف بلیات و ابتلاأت ہی ہوں (کَمَایَقُوْلُ النَّاسُ عَلٰی اَلْاَغْلَبِ) جو کہ کبھی غربت و افلاس کی ہیئت غمناک میں ، کبھی امراض و اسقام کی شکل نا گفتہ بہ میں ،کبھی صدمہ ورنج و حزن و ملال کی حالت جا نکاہ میں ، کبھی فرقت اعزہ و اقارب کی کیفیت زار و زبوں میں اور کبھی مال و زر کی قلت کی صورت پر غم میں ہوں ۔ تو پھر عظیم ترین کام کی ادائیگی اور بدلہ چہ معنی دارد؟
عوام الناس اس بات کے معتقد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا صلہ آخرت میں ہی ملے گا دنیا میں اس کا صلہ امتحانات و مبتلیات سے زیادہ نہیں اور کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ عقیدہ و اعتقاد بالکل غلط ، حقائق کے منافی اور مبنی علی الجہالت ہے۔ جہاں بندہ مومن کو کڑی سے کڑی آزمائش اور سخت سے سخت امتحان میں مبتلا کیا جاتا ہے وہاں اسے اتنا ہی عظیم صلہ اس دنیائے فانی میں بھی ملتا ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مسلم و مطیع خدا اس حیاتِ مستعار میں امتحانات بلیات کے بحر ہو لناک میں غوطہ خوری اور غواصی کرتا رہے مگر اس کے صلے میں اسے کامیابی اور کامرانی کا گوہر گرانمایہ حاصل ہی نہ ہو اور اس کا کام و مقصد صرف اور صرف آزمائشوں کے بحر بیکراں میں غواصی اور غوطہ غوری ہی ہو۔ یہ اعتقاد نہ قرین قیاس ہے ،نہ ہی عقل کے مطابق ہے ،نہ ہی تعلیمات قرآنی کے موافق ہے اور نہ ہی اصول فطرت سے ہم آہنگ ہے ۔ ۔ ۔ بقول اقبال :
|