عمیر نے کہا :"ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔" اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔
اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا 'اسے آنے دو' تاہم سیدنا عمر نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ نے سیدنا عمر سے کہا :"اس کی تلوار کو چھوڑ دو" پھر عمیر سے پوچھا 'بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟'
عمیر کہنے لگا 'میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔
آپ نے فرمایا :"اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔
کہنے لگا ،یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں ؟
آپ نے فرمایا :"ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔
اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ نے فرمایا :"بات یوں نہیں ۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آ گئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔"
عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کر دو۔ "
ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ
|