کو بھی سخاوت کر سکتا ہے؛ اس لیے مانگنے والے کو ایسے شخص کے بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے)
حق تو یہ ہے علامہ ابن باز رحمہ اللہ فی الواقع مذکورہ اشعار کے سو فیصدی مستحق تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذکورہ اشعار کا حرف حرف علامہ ابن باز رحمہ اللہ پر صادق آتا ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی زندگی کے آخری لمحات:
سب کو معلوم ہے کہ مرتے وقت مرنے والے کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ دراصل مرنے سے چند لمحہ قبل ہی مرنے والے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنے سامنے فرشتوں کا جم غفیر دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن زبان سے کچھ بیان نہیں کر پاتا۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی عظیم نوازش تھی کہ آپ مرنے سے صرف دوگھنٹے قبل تک بھی اسلام کی تبلیغ واشاعت میں لگے رہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے صاحبزادے شیخ احمد بن عبدالعزیز حفظہ اللہ آپ کی آخری بیماری کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم نے شیخ رحمہ اللہ کو وفات سے ایک دن قبل طائف کے ہسپتال میں داخل کروا دیا تو شیخ کی خصوصی دیکھ بھال کے لیے ایک عیسائی مرد نرس کو متعین کیا گیا تھا جو چوبیس گھنٹے شیخ کی دیکھ بھال ہی میں مصروف رہتے۔ ہم بھائی؛عبد اللہ، عبد الرحمن اور خالد کے ساتھ شیخ رحمہ اللہ کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے رہتے۔ اس اثنا میں ہم نے دیکھا کہ شیخ نے اپنا اکثر وقت عیسائی نرس کو اسلام کی دعوت دینے میں صرف کر دیا اور انتہائی اصرار کے ساتھ اس سے فرمایا کہ تمھیں عیسائیت کی حالت میں مرنا نہیں چاہیے۔ شیخ رحمہ اللہ کے اندر دعوت وتبلیغ کا یہ جذبہ ہم نے آپ کی وفات سے دو گھنٹے قبل تک ملاحظہ کیا۔ آخری لمحات کے بارے میں شیخ احمد بن باز کا بیان ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کی زبان پر سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ کے کلمات جاری ہو گئے۔ آپ نے ایک تبسم فرمایا اور پھر آپ کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
قارئین کرام! معاف کیجیے میں نے اپنے مضمون میں آپ کا بہت سارا وقت لے لیا۔
|