Maktaba Wahhabi

296 - 400
ادا کیا اور علم حدیث میں ان کی عظمت کا اعتراف کیا، واقعہ اس بات کی قطعی دلیل تھی کہ قرآن وسنت کے علوم میں میرے شیخ اپنے معاصر چوٹی کے علماء کے درمیان بہت بڑی حیثیت کے مالک تھے اور میں نے بحیثیت طالب علم یہ طے کر لیا کہ جب تک سعودی عرب میں رہوں گا ان کے تبحر علمی سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔ یونیورسٹی کے طلبہ اور عام نوجوانان اسلام کی فکر: دنیا کے گوشے گوشے سے جو طلبہ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے، مرحوم ان کا بہت زیادہ خیال کرتے تھے، انہیں اپنے قریب بٹھا تے، ان کے احوال پوچھتے، تعلیم، صحت، رہائش اور دیگر امور سے متعلق پوچھتے اور کوئی پریشانی ہوتی تو اسے دور کرتے، ان کے ساتھ گفتگو کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے، انہیں جدوجہد اور نیت وعمل میں اخلاص کی نصیحت کرتے، رات دن ان کی اچھی تربیت کے لیے کوشاں رہتے، ان میں ایمان اور غیرت دینی کو جگاتے اور تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت وارشاد کے لیے انہیں تیار کرتے۔ دنیا کے عام نوجوانان اسلام کے ساتھ بھی پوری زندگی ان کا بڑا گہرا ربط رہا، جب بھی ان کے ارد گرد نوجوان جمع ہوتے انہیں دینی علوم حاصل کرنے کی رغبت دلاتے، ظاہر وباطن میں اللہ سے ڈرتے رہنے، دین پر عمل کرنے اوردین کا مخلص خادم بن کر اس کی نشر واشاعت کے لیے کوشاں رہنے کی نصیحت کرتے۔ اور ان سب باتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی عمر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بڑا اہتمام کیا، انہیں امت اسلامیہ کے درخشاں مستقبل کا آئینہ دار اور ذمہ دار سمجھا، حضرت اسامہ بن زید، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبداللہ بن عمر، معاذ بن جبل اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم وغیرہم کا علمی مقام اسی فکر نبوی کی عکاسی کرتا ہے، ہمارے شیخ رحمہ اللہ پوری زندگی اس سنت نبوی کی اتباع کرتے رہے۔ جن لوگوں نے ان کے آفس میں کام کیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ دنیا کے گوشہ گوشہ سے ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں آپ کو خطوط بھیجا کرتے تھے اور آپ ان کے ہر خط کا جواب دیتے اور اگر کسی وجہ سے کوئی خط ان کے سامنے دیر سے پیش ہوتا اور جواب میں
Flag Counter