سکوں کہ شاید الباز اصل یمن کے باشندے ہوں یا بعض لوگوں کے خیال میں منطقہ حوطہ سے ان کا تعلق ہے، جس کے بارے میں وثوق سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن وہاں منطقہ تہامہ میں الباز کے نام سے ایک جماعت ہے، ممکن ہے کہ ہمارا تعلق بھی ان سے ہو، لیکن مکمل اعتماد سے یہ کہنا میرے لیے مشکل ہے، یہ بات درست ہے کہ یہ سوال مجھ سے ہمیشہ رہتا ہے، لیکن جس طرح انسان کے کون ہونے کی کوئی اہمیت نہیں اس طرح قبیلہ کون ہے بھی چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔
طلب علم ابتداءً:
شیخ ابن باز کی تعلیم، طالب علموں کے درمیان ایک مثالی نمونہ بن سکتی ہے، یہ ان کی شان ہے کہ ہمیشہ انہوں نے عالم سے زیادہ طالب علم رہنا پسند فرمایا، اس سفر میں آپ نے قرآن کریم سے ابتدا کی اور اس کو اوائل عمر میں حفظ کرلیا۔
میں نے سوال کیا، آپ اس مملکت میں عظیم علمی ودینی رتبے پرفائز ہیں، کیا میں آپ کے مراحل تعلیم کے بارے میں کچھ پوچھ سکتا ہوں، کہاں آپ کی تعلیم ہوئی اور کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس روشن اور چمکدار دینی لوح کو ہمارے لیے تیا ر کیا۔
آپ ماضی کو کرید تے ہوئے کہنے لگے، سولہ برس کی عمر میں میں نے قرآن کریم حفظ کرلیا، بلوغت سے قبل میں نے سماحۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ سے علم سیکھا، آپ کی ہی ذات مبارکہ میرا اولین علمی ودینی مدرسہ تھی، بعد ازاں ان کے چچا محمد بن عبداللطیف آل شیخ سے جو اس وقت ریاض کے قاضیوں میں سے تھے، پھر شیخ مسکراتے ہوئے مزید گویا ہوئے، 1346ھ میں شیخ سعد بن حمد بن عتیق سے بھی بعض اوقات تحصیل علم کیا جس طرح علم نحو میں نے شیخ حمد بن فارس سے سیکھا، کچھ دیر خاموشی کے بعد دوبارہ ماضی میں گم ہوتے سر گوشی کرتے ہوئے کہنے لگے اس کے بعد میں نے مفتی دیار سعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم سے 57ھ تک تسلسل سے تحصیل علم کیا، جس کے بعد میں نے حقیقی عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔
|