(2) انکساری اور تواضع ہر حالت اور کیفیت میں۔ ہر چھوٹا بڑا اس سے یکساں طور پر مستفید ہوتا۔
(3) ہمارے استاد ابن باز ہمیشہ مسنون دعاؤں اور اوراد ووظائف کا ان کے مخصوص اوقات میں بہت اہتمام کرتے۔
(4) ابن باز علم حدیث میں اپنے شاگردوں میں متن اور سند دونوں حفظ کروانے کا اہتمام کرتے اور پھر حدیث سمجھنے کا خصوصی طور پر خیال رکھتے۔
اور اس سوال کے جواب میں شیخ ابن باز کے ایک اور شاگرد پروفیسر عبد اللہ بن مانع الروقی نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے استاد محترم سے جہاں اللہ کے دین کے احکام سیکھے وہاں ہم نے ان سے اخلاق عالیہ بھی سیکھا اور اس اخلاق میں نمایاں چیزیں نیکی، تقویٰ، خشیت الٰہی اور انابت الی اللہ جیسی صفات عالیہ بھی شامل ہیں اور یہ صفات اس وقت ہمارے شیخ مرحوم پر مزید نمایاں ہو تیں جب خصوصاً وعدووعید کی آیات اور احکا مات شامل درس ہوتے۔ اور یہ ہی دینی علم کا اصل مقصد اورہدف ہے، فرمان خداوندی ہے:
’’اللہ کے بندوں میں سے درحقیقت اللہ سے ڈرنے والے علم والے ہی ہیں۔‘‘
اور اسی جواب میں مزید اضافہ کرتے ہوئے الشیخ عمر احمد بافضل نے کہا: ہمارے شیخ ابن باز کے اخلاق میں نمایاں چیز ان کی جودو سخا، فیاضی اور تواضع ہے اور اسی اخلاقی کمال نے ان کو ہر دلعزیز بنا دیا، اسی لیے لوگ ان کا بے پناہ احترام اورعزت کرتے ہیں۔
متواضع اور صابر استاد:
برادر ابو عبد العزیز جو کہ وزارت شؤن اسلامیہ میں ملازم ہیں۔ انہیں علامہ ابن باز کی جن صفات نے متاثر کیا وہ ہے ان کا انتہائی تواضع بھرا رویہ اور سائلین کے لمبے اور کثیر سوالات کے باوجود انتہائی صابرانہ انداز اور ہر سوال کا جواب چاہے سوال جتنا بھی لمبا ہو اور سائل کوئی بھی ہو اور پھر درس وتدریس میں بلا ناغہ حاضری، یہ وہ کمالات ہیں جو شیخ ابن باز میں موجود تھے۔
|