اس واقعے سے ذرا اندازہ کریں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ غریبوں اور مسکینوں سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ان کا کتنا عظیم مقام آپ کے دل میں تھا۔ دراصل علامہ ابن باز رحمہ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ما علیہ اور ما لہ کو اچھی طرح سمجھتے تھے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( وہل تنصرون وترزقون إلا بضعفائکم۔))
’’کیا تم لوگ اپنے کمزور اور غریب لوگوں کے بغیر ہی مدد اور رزق سے نوازے جاتے ہو؟‘‘ [1]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا یقینا علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے سامنے تھی:
(( اللہم أحینی مسکینًا وأمتنی مسکیناً واحشرنی فی زمرۃ المساکین یوم القیامۃ۔))
’’الٰہی! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ، مسکین ہی موت دے اور قیامت کے دن مسکینوں کے ساتھ ہی مجھے زندہ اٹھا۔‘‘[2]
اے کاش! آج کے مسلمان غریبوں اور مسکینوں کے بارے میں یہی طرز عمل اپناتے!!
(8)علامہ ابن باز رحمہ اللہ دوسروں کے جذبات کا بے حد لحاظ رکھتے تھے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اندر یہ ایک بہت ہی عظیم خوبی تھی کہ آپ دوسروں کے جذبات کا بڑا لحاظ رکھا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی خدمت میں طرح طرح کے لوگ آتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ ہی ان کے جذبات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند ایک واقعات ملاحظہ فرمائیں :
(1) یہ سن 1386 ہجری کی بات ہے۔ اردن کا ایک طالبعلم علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ کے وائس چانسلر تھے۔ اردنی طالبعلم
|