نے جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے درخواست دی۔ اُن دنوں اردنی طلبہ کے لیے جامعہ میں داخلہ آسان نہیں تھا۔ چنانچہ اس طالبعلم کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔ طالبعلم نے بہت کوشش کی کہ اس کا داخلہ ہو جائے لیکن نتیجہ ندارد۔ وہ وائس چانسلر یعنی علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے آفس میں پہنچا اور کہنے لگا: اگر آپ میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ میں نہیں دیں گے تو میں کافر ہو جاؤں گا!! علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو اردنی طالبعلم کی بات سے ایک شاک سا لگا اور اس کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ نے جامعہ کے اصولوں سے ہٹ کر اس کو داخلہ دے دیا اور آپ کے حکم سے اس طالبعلم کا داخلہ قانوناً جامعہ اسلامیہ مدینہ میں ہو گیا۔ [1]
(2)ایک دفعہ دلم کی جامع مسجد میں علامہ ابن باز رحمہ اللہ فجر نماز کے بعد طلبہ کو درس دے رہے تھے۔ درس اپنے شباب پر تھا اور علمی بحث چل رہی تھی۔ اسی دوران ایک آدمی مقدمہ لے کر آ گیا اور زور زور سے چلا کر کہنے لگا: ابن باز! یہ پڑھائی لکھائی کا کام چھوڑو اور ہمارا فیصلہ کرو، یہ تعلیم وتدریس کا کام چھوڑو اور ہمارے مقدمے کی سماعت کرو۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور اس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچایا۔اپنے ایک شاگرد سے صرف اتنا کہا: عبد اللہ بن رشید! اسے جا کر بتلا دو کہ درس کے بعد جب ہم مجلس قضا میں بیٹھیں گے تو آنا تمھارا فیصلہ ہو جائے گا۔ [2]
اس واقعے سے اندازہ کریں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس معمولی آدمی کے جذبات کا کتنا لحاظ کیا۔ اس طرح اناڑی پن کی گفتگو کسی عام آدمی سے کرنی بھی مناسب نہیں چہ جائیکہ ایک جج کے سامنے اس آدمی نے اس قسم کی بات کہی۔ لیکن علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کے جذبات کا بے حد لحاظ کیا اور اسے مجلس عدالت میں آنے کے لیے کہہ کر اپنا درس جاری رکھا۔
(3)جامعہ اسلامیہ مدینہ میں ایک افریقی طالبعلم مسلسل کئی بار فیل ہو گیا۔ جامعہ کے قانون
|