Maktaba Wahhabi

326 - 400
رہیں گے۔ معالی الدکتور صالح بن عبد اللہ العبود، چانسلر مدینہ یونیور سٹی کا بیان: شیخ ابن باز نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی شکل میں ایک ایسے گھنے درخت کی آبیاری کی جس کی شاخیں آج دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں، اورجس کے برگ وبار سے دنیا مستفید ہورہی ہے، اس درسگاہ سے نکلنے والے طلباء کی فوج دنیا بھر میں کتاب وسنت کی شمع روشن کیے ہوئے ہے، جامعہ کے لیے شیخ نے کتاب وسنت کی روشنی میں جو بنیادی خطوط متعین کیے تھے، آج بھی جامعہ اسی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ رہے گا۔ ڈاکٹر کامل الشریف، سابق وزیر اوقاف ومذہبی امور، اردن: شیخ کو میں نے مختلف علمی مجالس میں قریب سے دیکھا، وہ ایک عالم متبحر اور کشادہ ذہن فقیہ تھے، مسائل میں غور وفکر کا ان کا پنا ایک اسلوب تھا اور ہم اکثر وبیشتر علمی مجالس میں ان سے استفادہ کیا کرتے، میں ذاتی طور پر ان کی فقہی صلاحیت، تقویٰ اور پرہیز گاری سے بہت متاثر تھا، نیز موصوف امت مسلمہ خصوصاً وہ مسلمان جو مختلف ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں ان کے مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ سے زیادہ مالی تعاون فراہم کرنے کی خود بھی کوشش کرتے اور دوسروں کو بھی توجہ دلاتے، شاید ان کے شخصی کمالات اور پرہیز گارانہ طبعیت کے باعث لوگ انہیں دل کھول کر دیا کرتے تاکہ وہ مستحقین میں تقسیم کر سکیں، مزید یہ کہ شیخ موصوف کی زندگی دینی راہنماؤں کے لیے ایک نمونہ ہے کہ ایک عالم دین کے تعلقات عوام اور حکمرانوں کے ساتھ کس نوعیت کے ہونے چاہیں، موصوف نے حکومت کے ساتھ قریبی رابطہ رکھا، حالانکہ وہ حق بات کہنے میں بہت مشہور تھے اور اسی حکومتی تعلق کے باعث وہ کئی دینی اداروں کی سرپرستی کر سکے اور مختلف مسلمانوں کو ناقابل یقین حد تک فائدہ پہنچاسکے۔ علامہ ڈاکٹر صالح السدلان فرماتے ہیں : شیخ محترم ایک نہایت ہی پختہ عالم دین اور صاحب فتویٰ بزرگ تھے، اور فتویٰ دینے
Flag Counter