Maktaba Wahhabi

59 - 400
یہ معمول تھا کہ ہر دن وہ مجھ ناچیز سے بھی میرے گھر والوں اور بچوں کی خیریت دریافت کرتے اور ہمیشہ میرے لیے اور میرے بچوں کے لیے دعائے خیر فرماتے۔ مگر افسوس کہ آج بھی میں یہ قہوہ تیار کر رہا ہوں مگر وہ شیخ نہیں رہے جو قہوہ پینے کے بعد میرے لیے دعائے خیر کرتے تھے۔‘‘ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے ڈرائیور شاہین کا بیان ہے کہ میں نے تقریباً تین دفعہ شیخ رحمہ اللہ کو فجر کے وقت مسجد میں پہنچانے میں تاخیر کی ہے۔ مجھے گاڑی تک آنے میں تاخیر ہو جاتی جبکہ شیخ رحمہ اللہ مجھ سے پہلے گاڑی کے پاس کھڑے ہوتے۔ مگر کبھی بھی آپ نے مجھے کوئی بات نہیں کہی اور نہ ہی ڈانٹ پلائی۔ [1] (14)علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اندر امت اسلامیہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا: علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ کے اندر امت اسلامیہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دنیا کے عرض وطول میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے بارے میں معلوم ہوتا کہ انھیں ستایا جا رہا ہے یا ان کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں تو آپ کراہ اٹھتے اور آپ کے اندر ایک قسم کی بے چینی سما جاتی۔ خاص کر آپ فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں بہت متفکر تھے۔ دنیا کے کونے کونے سے مظلوموں کی فریاد آپ کے دربار میں آتی اور آپ ایک ایک فریاد کو بذاتِ خود سنتے اور اس میں ممکنہ حد تک تعاون فرماتے اور ان کے حق میں دعائیں کرتے۔ نیز افراد عالم کے درد میں بھی علامہ ابن باز رحمہ اللہ برابر کے حصے دار ہوتے اور ان کی مشکلات کے حل میں بھرپور تعاون فرماتے۔ یہ امت اسلامیہ سے ان کی بے لاگ محبت اور ہمدردی تھی۔ اس موقع پر ذرا وہ واقعہ یاد کریں جو کہ افریقہ کے جنگل میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر بیان کرتے ہیں کہ سعودی عرب کا ایک وفد افریقہ
Flag Counter