کے جنگلات میں کسی مہم پر نکلا تھا۔ ایک بڑھیا اس وفد کے ایک آدمی کے پاس آئی اور کہنے لگی: آپ لوگ سعودی عرب سے آئے ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں، تو بڑھیا کہنے لگی:میری طرف سے شیخ ابن باز کو سلام پہنچا سکتے ہو؟ اس نے پوچھا: تم شیخ ابن باز کو کیسے جانتی ہو؟ کہنے لگی: میں اور میرے شوہر نصرانی تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی توفیق عطا فرمائی اور ہم مسلمان ہو گئے۔ لیکن اسلام لانے کے بعد ہمارے رشتے داروں نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود ہمارے لیے تنگ ہو گئی۔ ہم میاں بیوی مالی تعاون کے شدید محتاج تھے۔ کوئی ہمارا تعاون کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ چنانچہ ہمیں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں معلوم ہوا تو ہم نے انھیں خط لکھا۔ ہم یہ خط لکھ کر بھول گئے تھے، کیونکہ ہمیں امید بھی نہیں تھی کہ یہ خط پہنچ بھی پائے گا۔ لیکن ایک دن اچانک سعودی سفارت خانے سے فون آیا اور ہمیں بلایا گیا۔ ہم سفارت خانہ گئے تو شیخ ابن باز کی طرف سے ہمیں دس ہزار ریال کا چیک دیا گیا!!....شیخ ابن باز ہی وہ مسیحا ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے بعد ہماری مصیبتیں ہلکی کیں۔ [1]
اسی قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے۔ اس واقعے کا تعلق بھی افریقہ ہی سے ہے۔ اس کے راوی علی بن عبد اللہ الدربی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی ایک رفاہی تنظیم کے چار افراد پر مشتمل ایک ٹیم افریقہ کے جنگلات میں جا رہی تھی۔ اس ٹیم کے ساتھ مصیبت زدہ لوگوں کے تعاون کا سامان بھی تھا۔ وہ مسلسل چار گھنٹے تک افریقہ کے جنگلات میں پیدل چلتے رہے۔ چلتے چلتے تھک کر چور ہو گئے تو آرام کی غرض سے ایک خیمے کے پاس رک گئے۔ اس خیمہ میں ایک بڑھیا تھی۔ انھوں نے بڑھیا کو کچھ تعاون بھی پیش کیا۔ اس نے وفد سے پوچھا کہ آپ لوگوں کی تشریف آوری کہاں سے ہے؟ جواب دیا گیا: سعودی عرب سے۔ وہ کہنے لگی:
(( بلّغو ا سلامی إلی الشیخ ابن باز۔))
’’آپ لوگ میرا سلام شیخ ابن باز کو پہنچا دیں۔‘‘
|