کرلے تو اس روزہ کی قضاکرنی چاہئے ؛البتہ درست پہلا قول ہے۔ اس لیے کہ آنکھ اور کان منفذ (معدہ تک جانے کے راستے ) نہیں ہیں۔
قسطوں میں خرید وفروخت
سوال:....قسطوں کی بنیاد پر جو گاڑیاں بیچی جاتی ہیں، ان کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے، یعنی اگر نقد کی صورت میں اس کی قیمت پندرہ ہزرار ریال ہے، تو قسط وار لینے کی صورت میں اس سے زیادہ قیمت لی جاتی ہے، کیا یہ صورت سود میں داخل ہے؟
جواب:....اگروقت کی تعیین کر دی گئی ہے اورقسطوں کی تعداد بھی معلوم ہے، تو قسطوں پرخریدوفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ا گر چہ نقد کے مقابل میں قسطوں پر لینے میں سامان کی قیمت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ بیچنے والا اور خرید نے والا دونوں ہی کا اس میں فائدہ ہے، بیچنے والے کو قیمت زیادہ مل جاتی ہے اور خریدار کو مہلت مل جاتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے یہ ثابت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہاکو ان کے گھر والوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نو سال کی مدت میں قسط وار قیمت ادا کرنے کی شرط پر بیچا تھا، ہرسال چالیس درہم ادا کرنا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا کہ قسطوں میں خریدوفروخت جائز ہے۔ نیز اس بیع میں دھوکہ، جہالت اور سود نہیں ہے، اس لیے دوسری شرعی خریدو فروخت کی طرح یہ بھی جائز ہوگا، بشرطیکہ سامان بیچنے والے کی ملکیت میں ہو اور بیچتے وقت وہ اس کا مالک ہو۔
قسط پر کوئی چیز خریدنا
سوال:....میں نے حکومتِ مصر کی ایک کمپنی سے کاشت کی زمین کا ایک قطعہ خریدا، زمین کی خرید گی کے وقت کمپنی نے یہ شرط رکھی کہ آپ زمین کی رجسٹری کے وقت قیمت کا چالیسواں حصہ نقد اداکریں اور باقی روپے دس سالوں میں سالانہ قسط پر پانچ فیصد اضافہ کے ساتھ اداکریں تو کیایہ بھی سود میں داخل ہے؟ اگرسود میں داخل ہے تو کمپنی کے ساتھ معاملہ کو کیسے حل کیا جائے جبکہ کمپنی پوری رقم یک مشت نقد لینے سے انکار کرتی ہے۔
|