کی فکر رکھتے تھے، ریاض آنے کے بعد میں نے مکتبہ سعودیہ میں مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ کی ایک کتاب (اردو میں لکھی ہوئی) پڑھی تھی، جس میں انہوں نے گزشتہ صدی عیسوی کی چوتھی دہائی میں بلاد عربیہ میں اپنے سفر کے واقعات قلم بند کیے تھے، مجھے یاد آتا ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ جب مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں سے ریاض کا ارادہ صرف حضرت الشیخ سے ملنے کی غرض سے کیا تھا، اس لیے کہ اس زمانہ میں بھی بحیثیت سلفی عالم ان کی شہرت عام ہو چکی تھی اور تقلید جامد کی تگیوں سے نکل کر قرآن وسنت کی وسیع ترین فضا میں پرواز کرنے کی وجہ سے آفاقی ہو چکے تھے اور دنیا کے ہر سلفی اہل حدیث عالم کے دل میں ان سے ملنے کی خواہش کروٹ لینے لگی تھی اور غالباً یہی وجہ تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد ان کے استاذ محترم مفتی دیار سعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں میں انہی کومناسب ترین آدمی سمجھا جن کے کندھوں پر اس عالمی یونیورسٹی کو چلانے کا بار گراں رکھا جاتا کیونکہ اگر کسی مقلد جامد عالم کو اگر یہ ذمہ داری سونپی جاتی تو وہ اس آفاقی جامعہ کو اپنے کو زہ صفت ذہن کی طرح کو زہ بنا دیتا، اللہ تعالیٰ کے بعد انہی کے آفاقی دل ودماغ کی سوچ تھی کہ وہ یونیورسٹی صحیح خطوط پر آگے بڑھی اور اس کی بنیاد قرآن وسنت کی تعلیمات پر راسخ وثابت ہوتی گئی۔
غیور عالم ربانی:
سماحہ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کا ظن، ان کے بارے میں صدبصد صادق نکلا، یونیورسٹی کو اپنے خون جگر سے سینچا، تمام طلبہ کو اپنے بیٹوں کی حیثیت دی، مسلم نوجوانان عالم سے رشتہ استوار کیا اور واقعی اس یونیورسٹی کو عالمی اور آفاقی بنا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے یونیورسٹی کی نگرانی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کی آفس متعدد آفسوں کا مجموعہ بن گئی، آفس برائے دعوت وارشاد اندرون ملک وبیرون ملک آفس، آفس برائے جہاد اسلامی، آفس برائے رد ملحدین واعدائے اسلام اندرون ملک وبیرون ملک، آفس برائے دعوت ملوک ورؤسائے ممالک برائے نفاذ اسلام وتوبہ خالص از کفر باللہ
|