اورپھر ان کی توبہ کا تذکرہ فرماتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، اس طرح حدیث ِافک میں حضرت عائشہ کی تہمت کا تذکرہ بھی انہیں بہت رلایاکرتا تھا۔
حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی کی روایت جسے امام احمد نے اپنی مسند میں بیان فرمایا ہے جس میں ایک اعرابی کا ذکر ہے۔ جو اسلام قبول کرتا ہے، پھر اس کی سواری کا قصہ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے کہنا کہ اس نے بہت تھوڑا عمل کیا اور بہت زیادہ اجر پایا اور اس طرح عقبۂ ثانیہ کے موقع پر انصار رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تذکرہ انہیں بے قابو کردیتا۔ آپ بلک بلک کر روتے، اس طرح زاد المعاد میں جب فتح مکہ کا تذکرہ سنتے تو بے اختیار روتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے۔ اس طرح کے دیگر سیرت کے واقعات ہیں جو شیخ ابن باز کو بے اختیار رونے پر مجبور کردیتے تھے۔
واقعۂ افک:
بھائی فہد السنیدکہتے ہیں، انہوں نے اپنی پوری زندگی میں شیخ کو حدیث افک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ پر جس طرح بلک بلک کرروتے ہوئے دیکھا تھا اس طرح کبھی بھی روتے نہیں دیکھا تھا۔ شیخ کافی دیر تک رک کر روتے رہے، اسی طرح ایک مرتبہ جب آپ پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ پڑھا گیا جو آپ نے وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر کہا تھا: ’’جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہو جانا چاہئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ توعلامہ ابن باز رحمہ اللہ بے اختیار رونے لگے حتی کہ ہچکی بندھ گئی۔
مکالمہ نمبر 4
ابن باز جب غصے میں آجاتے:
غصہ بھی انسانی طبائع کا حصہ ہے اور علامہ ابن باز رحمہ اللہ دوسرے انسانوں کی طرح بعض اوقات غصہ کا اظہار بھی کرتے اور بعض چیزیں دیکھ کر آپ کو غصہ بھی آجاتا اورآپ ناراضگی کا اظہار کرتے یا بعض اوقات حکمت کا تقاضا ہو تا کہ غصے کا اظہار کیا جائے یا کسی جائز مقصد کو
|