تاخیر ہوتی تو اس کے لیے معذرت کرتے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت میں بلاد عربیہ اور غیر عربیہ میں لاکھوں نوجوان ان کے منہج قرآن وسنت پر عامل ہیں اور جہاں جہاں ہیں امت اسلامیہ کو اسی کی دعوت دے رہے ہیں، ہمارے شیخ پر اللہ کا یہ خاص فضل وکرم رہا ہے اور اللہ کی نعمت کے اعتراف کے طور پر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا کہ میں بھی انہی پر وانوں میں سے ایک ہوں، ان کی علم وعمل اور زہد وتقویٰ والی زندگی کا خوشہ چیں ہوں، میں نے مدینہ یونیورسٹی میں ان سے عقیدہ طحاویہ پڑھاتھا، اور جب تک وہ زندہ رہے ان کے دروس ومحاضرات سے استفادہ کرتا رہا، میں نے خواب میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور وہ خواب میں نے لکھ کر اپنے آفس کے ایک ساتھی کو دیا، جنہوں نے اسے پڑھ کر حضرت الشیخ کو سنایا، انہوں نے مجھے اس کی تعبیر کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی بشارت دی اور میں نے خود اس کی تعبیر یہ نکالی کہ میں ان شاء اللہ اس قافلے کا ایک فرد بنوں گا جو قرآن وسنت کو آگے بڑھائے گا، میں جامعہ ابن تیمیہ ’’ جمعیۃ الامام ابن تیمیہ‘‘ تعلیمیہ خیریہ اور مرکز علامہ عبدالعزیز بن باز ہند کو اس خواب کی تعبیر سمجھتا ہوں۔
حضرت الشیخ سے میرا تعلق ہر دور میں رہا:
1967ء کی ابتدا میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد میں ریاض چلا آیا، میں نے چاہا تھا کہ وزارت تعلیم میں مجھے تدریس کی ملازمت مل جائے، لیکن اللہ نے میرے لیے اس سے بہتر مقدر فرمایا تھا، میں دارالافتاء ادارۃ الدعوۃ فی الخارج میں بحیثیت مترجم رکھ لیا گیا، موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے میں نے المعہد العالی للقضاء میں داخلہ لے لیا اور تین سال کی مسلسل کوششوں کے بعد وہاں سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان دنوں میرے شیخ موسم گرما اور ماہ رمضان میں اپنے چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق سال میں دوبار ریاض آیا کرتے تھے، میں ان کے پیچھے نماز تراویح پڑھنے کے لیے ہر رات اپنی جائے رہائش سے چل کر جامع مسجد دیرہ تک جاتا، راستہ میں کئی مسجدیں پڑتیں، لیکن حضرت الشیخ سے قربت اور ان کے اقوال وافعال اور نقش قدم سے مستفید ہونے کا جذبہ مجھے
|