Maktaba Wahhabi

305 - 400
ہیں اور اس کے بال بچوں کی خیریت دریافت کر رہے ہیں، میں اتنا جذباتی ہو گیا کہ عنقریب تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا، اسی لیے فوراً کمرہ سے باہر چلا گیا، میں سمجھ رہا تھا کہ میرے شیخ اب چند دنوں کے مہمان ہیں اور مجھ سے اپنے تعلق کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں نے آخری بار ان کی زیارت 25؍محرم منگل کی شام کو ہسپتال میں ہی کی اور جب اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کا سر پکڑ کر ان کی پیشانی چومی توفوراً پہچان گئے اور دھیمی آواز میں میرا نام لیا اور آگے کچھ بھی نہ کہا، ان کی آواز اور ان کا اسلوب الوداعی تھا، میرے دل میں یہ بات آگئی کہ اب میرے شیخ دنیا سے رخصت ہونے ہی والے ہیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، میں بدھ کی شام کو ریاض آگیا اور اسی رات وہ اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خالق ومالک سے جاملے اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے ان کے لیے خیر کی گواہی دی، آنسو بہائے اور ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا کی۔ ان کا مقام اور ان کی بعض خوبیاں : یہ مختصر سامضمون ان کے ذکر جمیل اور ان کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کے بیان کے لیے ہر گز کافی نہیں ہے اور نہ میری قوت بیان ان کی عظمتوں کی صحیح عکاسی کر سکتی ہے، مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی زندگی پر مختلف زبانوں میں بہت سے کتابیں لکھی جائیں گی، ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بڑے بڑے علماء ودعاۃ نے انہیں جن القاب سے یاد کیا ان کے چند نمونے یہاں لکھتا ہوں، جو بہر حال دنیائے اسلام میں ان کے مقام اور ان کی عظمت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ٭ وہ اس زمانے کے شیخ الاسلام والمسلمین تھے۔ ٭ وہ عصر حاضر میں اہل سنت کے امام تھے۔ ٭ وہ اس صدی میں دین اسلام کے مجدد تھے۔ ٭ گزشتہ چار سو سال میں ان جیسا عالم جلیل پیدا نہیں ہوا۔ ٭ وہ سلفیان عالم کے امام تھے۔
Flag Counter