کے انداز تدریس میں تبدیلی ہو جایا کرتی تھی۔
قوتِ استحضار اور بے پناہ حافظہ:
دورانِ درس نصوص کا استحضار اور دلائل کا انبار شیخ کا خاصہ تھا۔ کوئی بھی مسئلہ زیر بحث ہوتا آپ سے دریافت کیا جاتا، آپ کتاب وسنت سے اس پر دلائل کا انبار لگا دیتے، آیات اور احادیث آپ کی زبان سے سمندری موجوں کی طرح جاری ہو جاتیں۔ کبھی ائمہ عظام کے اقوال کبھی محقق علما کی آراء اور افکار کی روشنی میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے اوراس میں آپ نے پہلے سے تیاری نہ کی ہوتی بلکہ اپنے فوری استحضار اور خداداد حافظے کی مدد سے یہ دلائل پیش کرتے۔ الشیخ ضید ان الیاص کہتے ہیں : میں دوران درس آپ کا یہ کمال دیکھ کرحیران رہ جاتا کہ علم کا سمندر، حق وصواب کا علمبردار، قرونِ اولیٰ کی مثال، علمائے سلف کی نشانی، یہ ہمارا شیخ محترم یقینا اس دور کا علامہ تھا۔
مخالفین کے ساتھ علامہ ابن باز کا برتاؤاور رویہ:
نقطۂ نظر میں مخالفت رکھنے والے علما سے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا رویہ اور برتاؤ اپنی مثال آپ تھا۔ اگر شیخ مرحوم کے سامنے ان کے ہم عصر کسی ایسے عالم کا تذکرہ ہوتا جس کا شمار اہل سنت میں سے ہوتا تو آپ فرماتے: ہمارا فلاں بھائی یوں کہتا ہے۔ اگر چہ یہ بھی شاذونادرہی ہوتا تھا کیونکہ شیخ کسی کا نام لے کر تذکرہ نہیں کیا کرتے تھے۔ اگر مخالف کا موقف کمزور ہو تا تو آپ فرماتے: اللہ انہیں معاف کرے، فلاں یوں کہتے ہیں۔
الشیخ عبد اللہ الروقی اپنے استاذ ابن باز رحمہ اللہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں : مخالف کے ساتھ ہروقت انصاف اور خیر خواہی کا جذبہ میں نے اپنے شیخ محترم میں محسوس کیاہے، ہمارے استاذ محترم کے لبوں پر کبھی بھی مخالف کے لیے گالی یا برے الفاظ نہیں آئے تھے، جب بہت ہی مبالغہ کرتے تو کہتے: ’’اللہ اس کے ساتھ وہ معاملہ فرمائے جس کا وہ مستحق ہے۔‘‘ یہ کلمات اکثر منحرف اورباطل پرست متعصب لوگوں کے لیے استعمال فرماتے۔
|