ہے، آپ تو جامعہ کے صندوق سے جس قدر چاہیں لے سکتے ہیں ؟! شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے جامعہ کے امین الصندوق سے بات کی تھی مگر اس کا کہنا ہے کہ میں اپنی آیندہ ماہ کی تنخواہ کے علاوہ مزید چار سو ریال اپنے حساب میں جامعہ سے لے چکا ہوں !!یہ وہ تھے جو محض ضرورت مندوں کی اعانت کے لیے اپنی موجودہ پونجی ہی نہیں بلکہ آیندہ ماہ کی تنخواہ بھی پیشگی خرچ کر دیا کرتے مگر پھر بھی محتاجوں کی خبرگیری سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔‘‘ [1]
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی سخاوت اور دریا دلی کا یہ واقعہ بھی پڑھیں۔ اس کے راوی دارالافتاء ریاض کے ایک موظف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی خدمت میں فلپین سے ایک خط آیا۔ یہ خط ایک خاتون کی طرف سے تھا۔ اس نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو لکھا تھا کہ میرا شوہر مسلمان تھا، نصرانیوں نے دشمنی سے اس کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو کنویں میں پھینک دیا۔ میں اب ایک بیوہ ہوں اور میرے پاس کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میرا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ کس سے دردِ دل سناؤں، چنانچہ مجھے آپ کے پاس خط لکھنے کی راہنمائی کی گئی اور میں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس خاتون کی مدد کے لیے تعاون کے آفس کو لکھا لیکن جواب آیا کہ تعاون کا فنڈ محدود ہے اور اس خاتون کے لیے ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے کاتب سے خزانچی کے پاس درخواست لکھوائی کہ میری اگلی تنخواہ سے دس ہزار ریال پیشگی مذکورہ خاتون کو بھیج دیے جائیں۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق دس ہزار ریال آپ کی تنخواہ سے کاٹ کر بھیج دیے گئے۔ [2]
(13)علامہ ابن باز رحمہ اللہ خادموں اور نوکروں سے بہت اچھا سلوک کرتے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنے پاس کام کرنے والے خادموں اور نوکروں کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے۔ کبھی بھی آپ ان کو ہلکی باتیں نہیں کہتے جن سے انھیں تکلیف ہوتی۔ آج کی تاریخ میں بھی آپ کے خدام آپ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ یہ
|