Maktaba Wahhabi

55 - 400
اپنی ضرورتیں بیان کرتا، آپ کو برداشت نہیں ہوتا اور فوراً اپنے سکریٹری کو اس کی ضرورتیں پوری کرنے کا حکم فرماتے۔ بلکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنی تنخواہ سے ایڈوانس لے کر بھی غریبوں اور محتاجوں کو دے دیا کرتے تھے۔ تاریخ میں ایسا کم دیکھنے کو ملا ہے کہ کسی آدمی نے اپنی تنخواہ کے اُس حصے میں سے بھی خیرات کر دیا ہو جو اسے ماہ دو ماہ بعد ملنے والی ہو۔ مگر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی زندگی میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپ نے اپنی آیندہ تنخواہ میں سے بھی ایڈوانس لے کر غریبوں اور ضروت مندوں پر خرچ کر دیا۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو پوری بنی نوع انسان کی تاریخ میں بہر حال اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کو ان کی عملی اور رفاہی عظیم الشان خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ کمیٹی کی طرف سے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔آپ نے ’’جائزۃ الملک فیصل العالمیۃ‘‘ قبول تو کیا مگر ایوارڈ کی ساری رقم مکہ مکرمہ کے ادارہ ’’دار الحدیث الخیریہ الأہلیۃ‘‘ کو دے دی جہاں کئی ممالک کے طلبہ علم کے حصول کے لیے آتے تھے۔ اور جہاں سے علمِ دین کی شمع روشن ہوتی تھی۔ [1] مسجد نبوی شریف کے مدرس جناب ڈاکٹر عطیہ سالم رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ’’شیخ ابن باز رحمہ اللہ جہاں مخصوص علمی جلالت کے حامل تھے وہیں آپ کے اخلاق کریمانہ جود وسخا، محتاجوں اور غریبوں کی اعانت اور خبرگیری زبان زد عام وخاص بن چکی تھی۔جب بھی کوئی حاجت مند شیخ سے اپنی حاجت بیان کرتا، بلاتردد شیخ اس کے ساتھ تعاون فرماتے اور اکثر تعاون کے لیے جب آپ کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتا تو جامعہ سے اپنی آیندہ ماہ کی تنخواہ کے حساب پر قرض لے لیا کرتے اور وہ رقم محتاجوں کے تعاون پر خرچ کر دیتے۔ ایک دفعہ شیخ رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے تم سے دو سو ریال قرض کی ضرورت ہے۔ میں جھینپ سا گیا ا ور مجھے ہنسی آگئی، پھر میں نے کہا کہ شیخ! آپ کو مجھ سے قرض کی ضرورت
Flag Counter