سے معافی تو مانگتا ہے لیکن اس کے دل سے معصیت کا خیال نہیں گیا ہے، اس لیے ا س کو تائب نہیں کہا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا﴾ (آل عمران:135)
’’اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے۔‘‘
اس لیے جب انسان سچی توبہ کرلیتا ہے اور دوبارہ وہ گناہ میں ملوث ہو جاتا ہے تو اس سے صرف گناہِ ثانی کا مواخذہ کیا جائے گا؛ چونکہ گناہِ اول کوتوبہ نے مٹاڈالا ہے، لیکن کوئی شخص اپنے دل کے خلاف باتیں زبان سے ادا کرتا ہے تو اس سے پہلے اور دوسرے دونوں گناہوں کا مواخذہ کیا جائے گا۔ ہم اللہ سے عافیت کے خواستگارہیں۔
حرام کام کے متعلق صرف سوچ کررہ جانا قابل گرفت نہیں ہے
سوال:....حرام کام کرنے کے لیے صرف سوچنے کا کیا حکم ہے؟ مثال کے طور پر ایک شخص یہ سوچتا ہے کہ وہ چوری کرے یا زنا کرے، حالانکہ وہ اپنے بارے میں یہ جانتا ہے کہ ان کاموں کے لیے راہ ہموار بھی ہو جائے پھر بھی وہ انہیں کرسکتا ہے؟
جواب:....انسان کے دل میں جو برے خیالات آتے رہتے ہیں، مثلاً: وہ چوری، زنا یا شراب پینے کے متعلق سوچتا ہے لیکن وہ انہیں انجام نہیں دیتا ہے تو اس پر اس کی گرفت نہیں ہو گی اور نہ گنہگار ہو گا، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے :
’’ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان باتوں کو معاف کردیا ہے جو وہ سوچتی ہے جب تک وہ اسے عملی جامہ نہ پہنا دے یا اس کے متعلق زبان سے نہ کہے۔‘‘
اور دوسری حدیث میں ہے:
’’ جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا لیکن اسے انجام نہیں دیا وہ لکھا نہیں جائے گا۔‘‘
دوسری سند میں یہ اضافہ ہے :
’’ اس کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اس لیے کہ اس نے برائی کو میری وجہ سے چھوڑ دیا۔‘‘
|