ہیں، کبھی کبھار نماز پڑھ لیتے ہیں، رمضان یا عید، بقرعید کے موقع پر۔ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ کسی مجلس میں اگر وہ موجود ہوں تو میں انہیں سلام کروں یا نہیں ؟
جواب:....جان بوجھ کر نماز چھوڑ دینا کفر اکبر ہے، اس لیے کہ حدیث رسول ہے: ’’آدمی کے درمیان اور کفروشرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے۔‘‘ اور دوسری حدیث ہے: ’’ ہمارے درمیان اور کافروں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا۔‘‘ اس مفہوم کی اور کئی حدیثیں ہیں۔ اس آدمی کو مزید نصیحت کی جائے اور اس کو شریعت کا حکم بتایا جائے، اس کے باوجود اگر وہ نماز چھوڑ نے پر مصر ہے تو اس سے قطع تعلق کر لینا، اس کو سلام نہ کرنا، اس کی دعوت قبول نہ کرنا اور حاکم وقت سے اس کی شکایت کرنا واجب ہے، تاکہ حکومت اس سے توبہ کرائے، اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کا قتل واجب ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاِنْ تَابُوْاوَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ (التوبہ:5)
’’ اگر وہ لوگ توبہ کرلیں، نماز قائم کرنے لگیں اور زکاۃ اداکرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو نماز قائم نہیں کرے گا اس کا راستہ نہیں چھوڑا جائے گا، اس مسئلہ کے بے شمار دلائل ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی ہدایت کے لیے دعا کرتے ہیں۔
صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کا حکم
سوال:....ہم لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ فرض نماز میں صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز صحیح ہو گی یا اسے دوبارہ نماز پڑھنی ہو گی؟ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے پھر سے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں، یا اس مفہوم کی دوسری احادیث کی مخالف ہے؟ اس مسئلہ کی ہم لوگ پوری وضاحت چاہتے ہیں،اس لیے کہ اس پر لمبی بحث وتکرار ہو چکی ہے۔ اگر کوئی مسجد آئے اور
|