اپنے شیخ کی ایک صفت بیان کرتا ہے تو دوسرا دوسری خوبی سامنے لاتا ہے اور تیسرا اپنے مختلف انداز میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے اور چوتھا کسی اور طریقے سے انہیں سراہتا ہے، آئیے ذرا ملاحظہ فرمائیں :
عبد اللہ العتیبی فرماتے ہیں : ہمارے استاذ شیخ ابن باز کا شمار ان محدثین میں ہو تا ہے جو حدیث پڑھا تے ہوئے متن کے ساتھ سند پربھی کافی توجہ دیتے ہیں۔ رواۃ حدیث کی جانچ پڑتال اورسند کی تحقیق پر ان کا کافی زور ہوتا۔ حدیث کے بارے میں ان کا مذہب یہ تھا کہ جب حدیث صحیح ہوتو وہ ہی میرا مذہب ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ جب حدیث پڑھا رہے ہوتے تو ان پر وارفتگی، محبت وعقیدت اور پسندید گی کی ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی۔ اس کو محسوس کیا جا سکتا تھا، بیان نہیں۔ اسی طرح یہ کیفیت اس وقت بھی ہم محسوس کرتے جب آپ کے سامنے سنت رسول اور کتاب اللہ سے ماخوذ اور مبنی کوئی کلام پڑھا جاتا۔
حق کوثابت کرنے والا اور باطل کوزائل کرنے والا کلام آپ جھوم جھوم کرسنتے، آپ کے انگ انگ سے خوشی اورراحت ظاہر ہوتی۔ زیادہ تریہ کیفیت حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ان کے شاگرد رشید امام ابن القیمؒکے کلام سنتے ہوئے ظاہر ہوتی۔ دیگر علمائے حق کی باتیں بھی جو مبنی برحق اورکتاب وسنت سے ماخوذ ہوتیں بڑے شوق سے سماعت فرماتے۔ لیکن جب کسی ایسے فقیہ کی بات سامنے آتی جو نصوص یعنی کتاب وسنت کی مخالفت کر رہا ہو یا غیر محققانہ انداز اپنائے ہوئے ہو تو آپ کے چہرے سے ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا اورملال ظاہر ہوتا۔
کیا شیخ کے اس اندازِ تدریس میں کوئی تبدیلی پیدا ہو گئی تھی؟
اس سوال کے جواب میں عبد اللہ العتیبی کہتے ہیں : شیخ کا انداز زیادہ تو نہیں بدلا، البتہ بعض اوقات ان کے جوابات میں اختصار ہو جاتا تھا۔ میرا خیال ہے اس کی وجہ ان کا بڑھا پا،یا پھر چھوٹی عمر کے طلبا کا درس میں شامل ہونا تھا جو فہم مسائل میں یقینا بڑے طلبا سے کم ترتھے۔ اس لیے ’’کلموا الناس عل قدر عقولھم‘‘ کے انداز حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ
|