Maktaba Wahhabi

298 - 400
کشاں کشاں ان تک لے جاتا۔ میں ہمیشہ اسی ٹوہ میں لگا رہتا کہ میرے شیخ ریاض کب آئیں گے تا کہ ان کے سامنے زانوائے تلمذ طے کر نے کا موقع ملے، چنانچہ ابتدائی سالوں میں، میں ان کے سامنے فتح الباری پڑھتا رہا اور حدیث، فقہ،نحو و صرف کے قواعد پر ان سے درمیان درس مناقشہ کرتا تو کبھی ناراض نہ ہوتے، بلکہ خوش ہوتے اور ان کے بارونق وباایمان چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ میری پوری کوشش ہوتی کہ ریاض میں ان کے زمانہ قیام میں، ان کی علمی مجلسوں سے میری غیر حاضری نہ ہو، بہت سے علمائے پاک وہندان سے ملنے کے لیے ریاض آجاتے، تو میں ہی ان کے درمیان رابطہ، ہمزہ وصل اور مترجم کا کام کرتا اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک باقی رہا۔ اخلاق کریمانہ اور عظیم تواضع: عیسوی تاریخ کے اعتبار سے غالباً ساتویں دہائی کی بات ہے کہ ہندوستان کے مشہور دیوبندی عالم مولانا فضل اللہ جیلانی (الادب المفرد للبخاری کے شارح) حضرت الشیخ سے ملنے کے لیے ریاض آئے، شیخ نے انہیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی، جب شیخ اور تمام مہمانان دسترخوان پر بیٹھ گئے تو انہوں نے اس یمنی خادم کے بارے میں پوچھا جو ان کے گھر میں برتن دھویا کرتا تھا کہ کیا وہ دستر خوان پر موجود ہے، جب انہیں بتایا گیا کہ وہ ابھی نہیں آیا ہے تو اسے پکارنا شروع کیا اور اس وقت تک کھانا شروع نہیں کیا جب تک وہ خادم دسترخوان پر بیٹھ نہیں گیا، مولانا جیلانی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ شیخ کا لڑکا ہے؟ میں نے انہیں بتا یا کہ یہ ایک خادم ہے جو باورچی خانہ میں کام کرتا ہے، تو حیرت واستعجاب سے شیخ کی طرف دیکھنے لگے اور کھانا کھانے کے بجائے رونے لگے اور کہنے لگے کہ اس عظیم تواضع اور کمزوروں مسکینوں کے ساتھ ایسی شفقت ومہربانی کی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہے اور نہ تاریخ کے صفحات ایسی مثال پیش کرتے ہیں۔
Flag Counter