Maktaba Wahhabi

331 - 400
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے چند فتاوے قارئین کرام! آپ جانتے ہیں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں فتاوے کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ ایک مسلمان خواہ وہ پر لے درجے کا کیوں نہ ہو، مگر وہ کسی بھی کام میں اسلام کا قانون تلاش کرتا ہے۔ اَن پڑھ اور جاہلوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے ہر قسم کے معاملات میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ خواہ وہ معاملہ شادی بیاہ کا ہو یا طلاق وخلع کا، لین دین کا معاملہ ہو یا تجارت وشراکت کا، نجی زندگی کا معاملہ ہو یا معاشرتی زندگی کا۔ غرض ہر معاملے میں مسلمانوں کا طبقہ یہ چاہتا ہے کہ اسے شرعی قانون کا پتہ لگ جائے۔ مگر یہ شرعی مسئلہ کون بتلائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ بغیر علم کے فتویٰ صادر کرنا خود کو جہنم کا ایندھن بنانا ہے۔ اس لیے تاریخ میں ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ کسی صحابی سے کوئی فتویٰ دریافت کیا جاتا تو باوجودیکہ اس فتویٰ سے متعلق انھیں مکمل علم ہوتا لیکن اُن کی زبان سے فتویٰ صادر نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے سر سے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے فتویٰ پوچھنے والے کو دوسرے صحابی کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کر دیتے اور دوسرے صحابی تیسرے کی طرف اور تیسرے صحابی چوتھے کی طرف؛ حتیٰ کہ فتویٰ پوچھنے والا انھی صحابی کی خدمت میں پہنچ جاتا جن سے پہلے پہل اس نے فتویٰ پوچھا تھا۔ فتویٰ کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی اتنا آسان ہے جتنا کہ آج کے علما سمجھ بیٹھے ہیں۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ اس صدی میں دنیا کے سب سے بڑے مفتی تھے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے فتوؤں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور کئی مجلدات میں ان کی طباعت عمل میں آئی ہے۔ خاص کر ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر حفظہ اللہ نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے فتاوے جمع کر کے امت پر عظیم احسان کیا ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے فتاوے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ہر بات
Flag Counter